، اسلام آباد(رپورٹ روحان احمد بی بی سی اردو ڈاٹ کام)پاکستانی حکومت نے سائبر کرائم کی تحقیقات اور روک تھام کے لیے نئی تحقیقاتی ایجنسی قائم کر دی ہے جس کا نام ’نیشنل سائبر کرائم ایویسٹیگیشن ایجنسی‘ (این سی سی آئی اے) رکھا گیا ہے۔پاکستانی حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق نئی ایجنسی کا قیام ’پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ، 2016‘ کے آرٹیکل 29 کے تحت عمل میں لایا گیا۔اس سے قبل سائبر کرائم کی تحقیقات ’فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی‘ (ایف آئی اے) کا سائبر کرائم ونگ کیا کرتا تھا تاہم اب ان جرائم کی تحقیقات این سی سی آئی اے کرے گا۔خیال رہے گذشتہ روز پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے عندیہ دیا تھا کہ ان کی حکومت سوشل میڈیا پر ’پروپیگنڈا‘ روکنے اور لوگوں کے ’ڈیجیٹل رائٹس کے تحفظ‘ کے لیے ایک نئی اٹھارٹی قائم کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئی ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ ’ہر قسم کی ہراسانی بشمول آن لائن ہراسانی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔‘حکومتی نوٹیفکیشن کے مطابق این سی سی آئی اے کا ڈائریکٹر جنرل حکومت پاکستان کا منتخب کردہ گریڈ 21 کا افسر ہوگا اور ان کی سربراہی میں اس محکمے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرلز، ڈائریکٹرز، ایڈیشنل ڈائریکٹرز، ڈپٹی ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور دیگر افسران کام کریں گے۔پاکستان میں معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر رواں برس فروری سے پابندی عائد ہے۔حال ہی میں پاکستان کے وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا تھا کہ ’ایکس‘ پر پابندی نگراں حکومت کے دور میں لگائی گئی تھی تاہم وزیرِاعظم شہباز شریف کی حکومت نے اس پابندی کو برقرار رکھا۔پاکستانی وزیر کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’ایکس‘ کو ملک دشمنوں سے فنڈنگ لے کر ’ریاست کے مفادات کے خلاف‘ استعمال کیا جاتا ہے اور معیشت کو بھی نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’یہ پابندی میں سمجھتا ہوں کہ اصولی طور پر نہیں ہونی چاہیے لیکن جب ایسے بیانات آتے ہیں جو قومی سلامتی اور قومی مفاد کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس کے خلاف حفاظت کیسے کی جائے؟ ہمارے پاس کیا میکنیزم ہے کہ اس کو روکا جائے؟‘،تصویر کا کیپشنوزیرِ مملکت برائے آئی ٹی و ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ ایجنسی وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرے گی۔پاکستان کی وزیرِ مملکت برائے آئی ٹی و ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ ایجنسی وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے درج کی گئی شکایات کے ازالے کے لیے ایک اتھارٹی کی ضرورت تھی اور ’خصوصاً ان خواتین اور بچوں کے لیے جنھیں آن لائن نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘جب ان سے پوچھا گیا کہ ایف آئی اے کی موجودگی میں ایک نئے ادارے کو قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایف آئی اے کی صلاحیت سائبر کرائمز کو ہینڈل کرنے کے حوالے سے محدود ہے لہٰذا ایک ایسی سپیشل اتھارٹی کی ضرورت تھی جس کے اہلکار ان جرائم کی روک تھام میں مہارت رکھتے ہوں۔‘تاہم سائبر کرائم کے مقدمات پر گہری نظر رکھنے والے وکیل اور ماہرِ قانون اسد جمال کہتے ہیں کہ حکومت کے پاس نئی ایجنسی یا اتھارٹی بنانے کے اختیارات تو موجود ہیں لیکن یہ دیکھنا ہوگا کہ اس ایجنسی کے پاس سائبر کرائم کو سُلجھانے کی اہلیت ہو گی یا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں یہ سوال یہ پوچھا جانا چاہیے کہ کیا اس نئے ایجسنی کے پاس تحقیقات کے لیے وہ افرادی قوت دستیاب ہوگی جو سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے دستیاب ہے؟ میرا نہیں خیال ایسا ہوگا۔ ایف آئی اے کے پاس بھی افرادی قوت اور ٹیکنالوجی نہیں تھی۔’ان کے پاس ایسے جرائم کی تحقیقات کرنے کے لیے ضروری تربیت بھی نہیں تھی۔ یہاں شفافیت تو ہونی چاہیے نہ کہ کس طرح سے اور کس بنیاد پر یہ ایجنسی بنائی ہے۔‘پاکستان میں حالیہ برسوں میں سائبر کرائم قوانین کے تحت سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنان اور صحافیوں کے خلاف بھی مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ایسے میں یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔اس حوالے سے اسد جمال کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت سوشل میڈیا پر نگرانی بڑھانا چاہتی ہے۔انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت ’اور زیادہ متحرک طریقے اور مہنگی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پولیسنگ بڑھانا چاہتی ہے۔‘