مظفرآباد ( خصوصی رپورٹ )حکومت آزادکشمیر کی جانب سے صحافیوں کیخلاف فرضی اور بوگس مقدمات قائم کرنے اور آزادی اظہار رائے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کیخلاف قانون ساز اسمبلی میں موجود حکمران اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتوں اور اپوزیشن نے اس انتقامی روش کی شدید مذمت کرتے ہوئے سوشل میڈیا مانیٹرنگ کمیٹی کو مسترد کر دیا ہے جبکہ سپیکر قانون ساز اسمبلی نے حکومت کو صحافیوں کیخلاف مبینہ مقدمات سمیت سوشل میڈیا مانیٹرنگ کمیٹی کے نام پر اپنے فرائض سے روکنے کے حوالے سے اسمبلی اجلاس میں رپورٹ طلب کر لی آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی اجلاس کے موقع پر ٹی وی جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی کال پر سینٹرل یونین آف جرنلسٹس اور سینٹرل پریس کلب کے زیر اہتمام حکومت پر تنقید کرنے کی پاداش میں صحافیوں پر مقدمات درج کرنے کیخلاف اسمبلی کے سامنے صحافیوں کا احتجاجی مظاہرہ اور دھرنادیا گیا آزادکشمیر کی سیاسی قیادت نے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیامظاہرین نے سیاہ پٹیاں باندھ کر آزاد ی اظہار رائے کا گلہ گھونٹنے کیلئے اٹھائے جانیوالے حکومتی اقدامات کیخلاف شدید نعرے بازی کی سابق وزرائے اعظم راجہ فاروق حیدر، سردار یعقوب خان، حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہان پیپلزپارٹی کے صدر چوہدری یاسین، مسلم لیگ ن کے صدر شاہ غلام قادر، جموں وکشمیر پیپلزپارٹی کے صدر حسن ابراہیم، تحریک انصاف کے آزادکشمیر اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خواجہ فاروق احمد کاصحافیوں نے اظہار یکجہتی کیا قانون ساز اسمبلی اجلاس شروع ہوتے ہی اسمبلی میں سیاسی قیادت کا صحافیوں پر مقدمات قائم کرنے کے اقدامات کیخلاف شدید رد عمل، سپیکر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر نے وزیر قانون میاں عبدالوحید کی سربراہی میں معاملے کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کیلئے کمیٹی قائم کر دی مظاہرین کی مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے صحافیوں وقاص کاظمی اور راجہ خالد اور اسلام آباد کے صحافیوں عامر محبوب، راجہ کفیل، کاشف میر، شہزاد راٹھور کیخلاف مبینہ خفیہ مقدمات کی شدید مذمت اظہار رائے پر حکومت کی جانب سے قدغن لگائے جانے کیخلاف جدوجہد کرنے کا اعلان کیا صحافیوں کے احتجاجی مظاہرے اور دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف قانون ساز اسمبلی خواجہ فاروق احمد نے کہا کہ آزادکشمیر حکومت پہلے خفیہ اب اعلانیہ طور پر صحافیوں کی آواز دبانے کی کوشش کر رہی ہے جب کوئی حکومت ناکامی کی جانب جاتی ہے اور ڈلیور نہیں کر سکتی تو اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے جتنی بے توقیری اس اسمبلی کی ہوئی ہے اس سے پہلے آزادکشمیر کی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ حکومتی عمال کی بد عنوانیوں کی نشاندہی پر غیر جمہوری طریقے سے کارروائی کرنے کیخلاف ہوں اگر کسی صحافی نے غلط کیا ہے تو صحافتی اداروں سینٹرل پریس کلب، پریس فاونڈیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے ایف آئی آر کرنی اور سیل کرنے اس سے حکومت کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے حکومتوں میں خرابیاں ہوتی ہیں مہاجرین کی کالونیوں میں مسائل ہیں اگر کسی نے اسکی نشاندہی کی ہے تو حکومت کو اسکی تحقیقات کرنی چاہیئں اس طرح کے اقدامات سے حکومت کو جگ ہنسائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ سابق وزیراعظم آزادکشمیر سردار یعقوب خان نے کہا کہ حیران ہوں کہ یہ دارالحکومت مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کی نمائندگی کر رہا ہے یہاں صحافیوں کیخلاف کوئی ایسے اقدامات کرنا غیر اخلاقی ہے آزادکشمیر کی چھوٹی سے بات کو بھی ہندوستان بہت ہائی لائٹ کرتا ہے اگر کوئی سنجیدہ ہوتا تو ایسی بات ہی نہ کرتا میڈیا کے نمائندے ریاست کے باشندے ہیں مجھ پر اگر میڈیا تنقید کرے تو اس کا شکریہ ادا کروں گا کہ میں کوئی فرشتہ تو نہیں ہوں اس پر کیا اعتراضات ہیں کہ میڈیا کوئی تنقید کرے ہم میڈیا کیخلاف ایسی کمیٹیوں کا حصہ نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی آزادکشمیر کے صدر چوہدری یاسین نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹیوں کا ہمیں علم نہیں ہے کسی انتقامی کاروائی کاحصہ نہیں بنیں گے اور نہ ہی ایسی کارروائیوں کی حمایت کریں گے صحافیوں کیخلاف اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں مسلم لیگ ن کے صدر شاہ غلام قادر نے صحافیوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے راجہ فاروق حیدر خان کی موقف سے اتفاق کیا جموں وکشمیر پیپلز پارٹی کے صدر حسن ابراہیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ جموں وکشمیر پیپلز پارٹی بنیادی انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرتی رہی ہے جمہوری معاشروں میں صحافت کی آزادی ہی جمہوریت کا حسن ہے آزادکشمیر میں کسی غیر جمہوری اقدام کی حمایت نہیں کر سکتے بعد ازاں آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی اجلاس شروع ہوا تو اراکین اسمبلی خواجہ فاروق احمد، فاروق حیدر، سردار یعقوب احمد، حسن ابراہیم , چوہدری یاسین نے خطاب کرتے ہوئے میڈیا کیخلاف حکومتی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے آزادی اظہار رائے کے تحفظ کیلئے صحافیوں کی جدوجہد کی حمایت کا اعلان کیا جس پر سپیکر اسمبلی چوہدری لطیف اکبر نے وزیر قانون انصاف ،پارلیمانی امور اور انسانی حقوق میاں عبدالوحید کو ہدایت دی کہ صحافیوں سے مل کر ان کے تحفظات کا جائزہ لے کر اسمبلی اجلاس میں رپورٹ پیش کریں