اسلام آباد۔(نمائندہ خصوصی ):وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ وتحقیق رانا تنویرحسین نے کہاہے کہ وزیراعظم محمد شہبازشریف کی ہدایت پر گندم کی فوری خریداری شروع کرنے اورخریداری کے اہداف میں اضافہ کیلئے صوبائی وزرائے اعلیٰ کوخطوط ارسال کئے گئے ہیں، گندم کی درآمد کے حوالہ سے وزیراعظم نے انکوائری کا حکم دیا ہے، نئے مالی سال کے بجٹ میں چھوٹے کاشتکاروں کو تاریخی ریلیف دیا جائے گا۔تمام صوبوں میں گندم کی خریداری کے اہداف نیچے چلے گئے ہیں، صوبائی حکومتیں مجموعی پیداوار کا 25 فیصد خریدتی چلی آ رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت فوری خریداری نہ ہونے کی وجہ موسم کی وجہ سے پیدا ہونے والی نمی ہے۔ وفاقی حکومت صرف پاسکو کے ذریعہ گندم خریدتی ہے جوسٹرٹیجک ذخائر اور مسلح افواج کیلئے ہوتی ہے، پاسکو کا اپنا ہدف ہوتا ہے جو مجموعی ہدف سے بہت کم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے تمام وزرا اعلیٰ کو لیٹر لکھ دیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ گندم کی خریداری کے اہداف کو بڑھانے کیلئے اقدامات کریں اور خریداری بھی فوری طور پر شروع کر دیں۔ گندم کی خریداری کے اہداف میں اضافہ اور فوری خریداری صوبائی حکومتوں کا اختیار ہے، وفاقی حکومت صوبوں کو صرف درخواست کر سکتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ آنے والے چار پانچ دن میں معاملات بہتری کی طرف جائیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم سبسڈی کے حوالے سے بھی بہت فوکس ہے اور ان کا موقف ہے کہ سبسڈی ہدف بر مبنی ہونی چاہئے اس کیلئے طریقہ کار بنایا جا رہا ہے۔ فرٹیلائزر فیکٹریوں کو سستی گیس اس لئے دی جاتی ہے تاکہ مختلف قسم کی کھادیں سستی ہوں مگر اس کا فائدہ بھی کسانوں کو نہیں پہنچتا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ پاسکو سے متعلق جتنی بھی شکایات آ رہی ہے ان پر ہم نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، تحقیقات کے بعد ذمہ دار افسران اورمڈل مین کے خلاف کارروائی ضرور ہو گی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ گندم کی سمگلنگ کے خاتمے کیلئے بھی حکومت نے جامع اقدامات کیے ہیں، اس وقت گندم کی سمگلنگ نہیں ہو سکتی کیونکہ باہر گندم کی قیمت کم ہے۔ رانا تنویرحسین نے کہا کہ گندم کی درآمد کا فیصلہ نگران دورمیں ہوا تھا اس وقت جو رپورٹ دی گئی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ گندم کی قلت ہو سکتی ہے، میرے خیالمیں یہ صورتحال نہیں تھی، وزیراعظم نے اس حوالے سے انکوائری کا حکم دیا ہے اگر ہائوس کمیٹی بنانا چاہتا ہے تو اس کیلئے ہم تیار ہیں۔ مستقبل میں اس طرح کی بد انتظامی کے تدارک کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں گے اور میں یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ اس طرح کی صورتحال پیش نہیں آئے گی۔وزیراعظم کو بھی اس معاملے پر تشویش ہے، انہوں نے کئی میٹنگز کی ہیں تاکہ چیزوں کو مرکزی دھارے میں لایا جا سکے۔ انہوں نے کہاکہ فرٹیلائزر کی سپلائی چین کو برقرار رکھا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ قیمت کو فیکس کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ہمیشہ زراعت اور کسانوں کیلئے اقدامات کیے ہیں، بجٹ میں چھوٹے کاشتکاروں کو تاریخی ریلیف دیا جائے گا کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ زراعت پاکستان کی معیشت کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اراکین بجٹ کے حوالے سے تجاویز دینا چاہتے ہیں تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ قبل ازیں نکتہ اعتراض پر ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ زراعت پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے،بہتر زرعی پالیسی سے ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور برطانیہ جیسی لبرل معیشتیں بھی کسانوں کو براہ راست سبسڈی دیتی ہیں ، بھارت میں کسانوں کی 20 فیصد آمدن حکومت براہ راست کسانوں کو دیتی ہے، پاکستان میں زرعی شعبے میں تین قسم کی سبسڈیز دی جا رہی ہیں، دو قسم کی سبسڈیز اشرافیہ کے پاس چلی جاتی ہیں جبکہ گندم کی خریداری کی صورت میں ایک سبسڈی کسانوں کے پاس براہ راست منتقل ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ گندم کی خریداری کی پالیسی سے کسانوں کو مسائل کا سامنا ہے۔ سندھ میں پاسکو کا صرف ایک سینٹر خیرپور میں قائم ہے وہاں پر کسان باردانے کی تلاش میں ہے 70 سے 80 فیصد باردانہ مڈل مین کے پاس جا رہا ہے،یہ کسانوں کا استحصال ہے۔ 10 ملین میٹرک ٹن گندم کی درآمد کا کوئی جواز نہیں ہے، ہمیں بتایا جائے کہ حکومت کسانوں سے زیادہ گندم کیوں نہیں خرید سکتی۔ عمیر احمد نیازی نے کہا کہ ہمارے علاقے میں زراعت ٹیوب ویلز کے ذریعے ہو رہی ہے۔ پاکستان کو سالانہ 32 ملین میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہے، گندم کی درآمد کی وجہ سے مارکیٹ کا توازن متاثر ہوا ہے، حکومت نے جو سپورٹ پرائس مقرر کی ہے وہ منصفانہ نہیں ہے اسی طرح فرٹیلائزرز کی قیمتیں اور فصل پر اخراجات بہت زیادہ ہیں، کسانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے۔ میر غلام علی تالپور نے کہا کہ ان کے پورے ضلع سے 60 ہزار من گندم کی خریداری ہوئی ہے جبکہ ضلع میں 10 سے 12 لاکھ من گندم پیدا ہوتی ہے، اس مرتبہ گندم کی فصل سے کسانوں کے چہرے مرجھا گئے ہیں، گندم کی قیمت 3 ہزار کے قریب چل رہی ہے، اچھی فصل ہونے کے باوجود گندم کی درآمد کی تحقیقات ہونی چاہئےکیونکہ اس سے ملک کے کسانوں کو نقصان ہوا ہے۔ گندم کی خریداری کی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، میری وزیراعظم سے گزارش ہے کہ وہ اس پالیسی پر نظرثانی ضرور کریں بصورت دیگر آئندہ سال ہمیں گندم کی درآمد کی ضرورت ہو گی۔ خالد مگسی نے کہا کہ زراعت پاکستان کی معیشت کی بنیاد ہے جن علاقوں سے گیس نکلتی ہے ان پر قریبی علاقوں کے لوگوں کا پہلے حق ہوتا ہے۔ وقاص شیخ نے کہا کہ پنجاب اور سندھ کے کسان مشکل میں ہے۔ ٹیوب ویلز کے اخراجات بڑھ گئے ہیں، کسانوں کے پاس فرٹیلائزرز کے خریداری کے پیسے نہیں ہوتے مگر اس کے باوجود کسانوں کو لاگت سے کم قیمت فراہم کی جا رہی ہے۔رضا حیات ہراج نے کہا کہ یہ معاملہ پورے ملک کیلئے اہمیت کا حامل ہے۔ پرکیورمنٹ کے وقت گندم کی درآمد کا کوئی جواز نہیں تھا۔ جنوبی پنجاب میں گندم کے نرخ سندھ اور پنجاب کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں ہمیشہ سے کم ہوتے ہیں، ساہیوال سے لے کر رحیم یار خان تک گندم کا کوئی خریدار موجود نہیں ہے۔ گندم کی سپورٹ پرائس 2022 والی ہے اس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے اگر کسانوں سے گندم نہیں خریدی گئی تو یہ ضائع ہو جائے گی۔ مخدوم جمیل الزمان نے کہا کہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس کے حل کیلئے حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ دیگر ممالک میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے کہیں زیادہ ہے،ہمیں گندم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں اضافے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، غذائی سلامتی کے حوالے سے موثر پالیسی کی ضرورت ہے۔ رکن قومی اسمبلی عبداللطیف نے کہا کہ گندم کی خریداری میں کمیشن خوری کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ گندم کی خریداری کے معاملے پر حکومت کو سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تہمینہ دولتانہ نے کہا کہ وہاڑی میں سب سے زیادہ گندم ہوتی ہے، وہاں پر بھی مسائل موجود ہیں۔ شہریار مہر نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت کا اہم شعبہ ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ شعبہ سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے۔گندم کی پالیسی نگران حکومت نے بنائی تھی موجودہ حکومت اس پالیسی کو تبدیل کر سکتی ہے۔حکومت ایوان کو گندم کی خریداری کے اہداف کے بارے میں اعداد و شمار سے آگاہ کرے ۔