لاہور( بیورو رپورٹ)وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہہمارے لئے راستہ موجود تھا کہ عام انتخابات میں چلے جاتے لیکن بتایا جائے آئی ایم ایف سمیت دنیا کے کس ملک نے نگران حکومت سے بات کرنا تھی ،پھر پاکستان کا کیا بننا تھا ،سیاست بچ جاتی لیکن ریاست نہیں بچنی تھی ،نیب کو ختم ہونا چاہیے اوروقت آئے گا جب نیب ختم ہو گی اوراحتساب کا آزاد ادارہ بنے گا اور اس پر کوئی دباﺅ نہیں ہوگا،عمران خان جیسے شخص سے آپ عقل کی بات کر ہی نہیں سکتے ، سیاستدان آئینی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے اختلافات کے باوجود پاکستان کے مفادات میں بات نہیں کریں گے تو بہتر ی نہیں ہو سکتی لیکن جو بات کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ اسے زور لگانے دیں جب تھک جائے گاپھر بات ہو جائے گی،یہ ای وی ایم مشین کے ذریعے کامیابی حاصل کر کے اپنی مرضی کی تعیناتیاںکر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا، پاکستان کا ایسا کون سا چور ہے ہے جو تمہاری بکل میں موجود نہیں ، تم جس کا کھاتے ہو اس کو کاٹتے ہو ،آج انہیں کاٹ رہا ہے جو اسے انگلی پکڑ کر چلاتے تھے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی وزیر سردار ایاز صادق کے ہمراہ ریلوے ہیڈ کوارٹر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ جو بھی آج پاکستان اور پاکستانی قوم بھگت رہی ہے بشمول ہمارے ہے یہ اس شخص اور اس کے نالائق ٹولے کا کیا دھرا ہے اورہم حیران ہیں کہ وہ کس بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ اس بات کا پر چار کر رہا ہے کہ وہ ملک کو بچارہا تھا۔ صرف ریلوے کی بات لے لیں تو 45ارب روپے کا خسارے ریلوے کو دے گئے ہیں ،ہم نے اسے 36ارب تک چھوڑا تھا اور جسے دو سے تین ارب سالانہ کم ہو نا چاہیے تھا وہ 11ارب روپے بڑھ گیا ہے اور جو آمدن ہم نے چھوڑی تھی اس میں برائے نام اضافہ کیا ہے ، یہ سارے نظام کو تلپٹ کر گئے ہیں اوریہ صرف ریلوے کا حال نہیں ہے بلکہ ہر ادارے کا عمران مافیا اور اس کے ساتھ جو سیاسی مسخرے اور سیاسی یتیم تھے انہوں نے کباڑہ کر دیا ہے ۔ اب یہ شخص تواتر سے جو کہہ رہا ہے اس کے لےءضروری ہو گیاہے کہ اس کا ساتھ ساتھ جواب دیا جائے ۔
جو آدمی دوسروں کو چور کہتا ہے وہ خود کیا ہے وہ عادی چور ہے عادی مفت خورہ ہے یہ ساری زندگی لوگوں کے مال پر پلا ہے ۔ اس سے کوئی پوچھے تم تین سو کنال کے گھر میں رہتے ہو لیکن تھوڑا سا انکم ٹیکس دیتے ہو،اتنا بجلی کا اتنا بل نہیں آتا جتنا تم انکم ٹیکس دیتے ہو ، تمہارا کاروبار کیا ہے تم تو لوگوں پرانگلیاںاٹھاتے ہو تمہارا کاروبار کیا ہے ، تم کہتے ہو فلاں کے بچے باہر بیٹھے ہیں تمہارے اپنے بچے کالا شاہ کاکوں میں رہتے ہیں؟۔ ہم تو آج کہہ رہے ہیں ڈاکٹر اسرار مرحوم اور حکیم سعید مرحوم دہائیوں پہلے بتاگئے تھے کہ پراجیکٹ عمران لانچ ہو رہا ہے ۔ بعض لوگوں کو یہ ہضم نہیں ہو رہا کہ پراجیکٹ ناکام کیسے ہوگیاہے ، پراجیکٹ اس وقت ناکام ہو گیا کیونکہ یہ نان سٹارٹر تھا ،آ جا کر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو آوازیں دے رہا ہے کہ آئیں اور ملک کو بچائیں،اس کا کیا مقصد ہے ، یہ وہ آدمی ہے جوآئین سے کھلواڑ کرتا ہے ،جمہوریت کانام بھی لیتا ہے اور آئین کی حدود سے تجاوز بھی کرتا ہے اس کے صدر کا بھی یہی حال ہے اس کے اسپیکر کا بھی یہی حال ہے ، انہوں نے آئین کو ردی کی کتاب سمجھا ہے اس سے پہلے یہ کام مارشل لاءڈکٹیٹر کرتے تھے یہ ان سے بھی بد تر ہے ،بظاہر جمہوری لیڈر ہے لیکن آئین و قانون سے کھلواڑ کرتا ہے ،جو اس کی لائن پر نہیں چلتا یہ اسے کو گالیاں نکالتا ہے ،سوشل میڈیا کے ذریعے بے عزتی کراتا ہے ، اس کی پوری پارٹی اسی کام پر لگی ہوئی ہے ،گھر سے لے کر جماعت تک سب کا ایک ہی کام ہے ،یہ چاہتے ہیںجادو ٹونے سے لوگوں کو پاگل کرو چور بناﺅ یا غدار بناﺅ،غداری کے ٹائٹل مارشل لاءڈکٹیٹر دیا کرتے تھے یہ سول مارشل لاءڈکٹیٹر ہے ،یہ نادان آدمی ہے یہ کہتا ہے اس کی آواز کے سوا کسی کی آواز نہیں ہے ، بائیس کروڑ کا ملک ایک غیر متوازن آدمی کی خواہشات کا غلام نہیں ہو سکتا۔ احسان فراموش اس کی فطرت ہے
جس نے اس کے ساتھ احسان کیا اس نے اس کو ڈسا اس کی تھالی میں چھید کیا ، آج کل جن کو گالیاں دے رہا ہے وہ اس کے محسن ہے وہ اسے انگلی پکڑ کر چلا رہے تھے ، اسے تو دو قدم چلنے نہیں آرہا تھا،وہ آپ کے لئے دوسرے ممالک میں گئے جو تمہارا کام تھاانہوں نے کیا ،پیسے مانگے کہ کسی طرح ملک چلے ، نالائق کا کام وہ کرتے تھے تب ٹھیک تھے ،جب اسے مشورہ دیتے تھے اپوزیشن پر یلغار بند کرو ملک کو چلاﺅ اپوزیشن کو دیوار میں زندہ چننا تمہارا کام نہیں لیکن اس نے ایک بات نہیں سنی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہتا ہے سازش ہوئی بتاﺅ کیا سازش ہوئی ، تم کسی سے ہاتھ ملانے کے روادار نہیں ،تمہیںاپنے ساتھیوں کے نام یاد نہیں ،تم خود خوشامدی ،درباریوں اورمیراثیوں میں گھرے ہوئے تھے ،کیا لوگوں نے تمہارے ساری زندگی رہنے کا معاہدہ کیا ہوا تھا ،ہم نے تمہارے لوگوں سے رابطہ کیا یا انہوںنے کیا ، کیا آئین میں تحریک عدم اعتماد کی شق موجود نہیں ، ہم پوری ذمہ داری سے کہتے ہیں ہم نے کسی کو ایک آنے کی پیشکش نہیں کی نہ کسی نے ایک آنامانگا ۔وفاقی وزیر سردار ایاز صادق نے کہا کہ ہر پاکستانی عمران خان کو بھگت رہا ہے ۔جب کشمیر میں فوجیں اتاری جارہی تھیں اس وقت صرف لپ سروس ہوئی ۔ہم نے پارلیمنٹ میں بات کی اور اپوزیشن نے تجویز دی کہ ہر ملک میں اپنے نمائندے بھیجیں لیکن نہیں بھیجے گئے کیونکہ یہ ٹرمپ کے ساتھ وعدہ کر کے آئے تھے وہ پورا کرنا ضروری تھا،مودی کے بارے میں عمران خان کیا کہتا تھاکہ جب مودی جیتے گا تو حالات بہتر ہو جائیں گے،اس نے جیتنے کے بعد کشمیر کے ساتھ جو کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ آئی ایم ایف آپ پر اعتبار نہیں کرتا ، 2019ءمیں معاہدہ کیا تو ہاتھ کاٹ دئیے ،وزیر خزانہ اورگورنر اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے تھے ، جو دست،خط کئے گئے پاکستان کو جکڑ کر رکھ دیا گیا اور وہ آج ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے ،آئی ایم ایف کہتا ہے کہ ہم پاکستان پر اعتبار نہیں کرتے کیونکہ یہ تحریری معاہدہ کر کے مکر جاتے ہیں ،دنیا میں ساکھ کمزور ہو رہی ہے ۔ چین ، سعودی ، ابو ظہبی ناراض ہوئی لیکن خدا کا شکر ہے اب تعلقات بہتر ہو رہے ہیں ۔جب گیس تین ڈالر پر مل رہی تھی اس وقت معاہدے نہیں کیے آج قیمت چونتیس ڈالر سے زیادہ ہے ، پاکستان سے مخلص ہوتے تو یہ معاہدے کئے ہوتے لیکن تم آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر تھے ۔ کرسی کا اتنا شوق ہے حکمرانی کااتنا شوق ہے اس کے بغیر رہ نہیں سکتا ،وزیر اعظم سے چمٹے رہنے کے لئے تحریک عدم اعتماد کو لٹکایا گیا پھر یہ کوشش کی گئی کہ بات کچھ منٹ تک چلی جائے اور میں وزیر اعظم رہ جاﺅں ۔ کرسی کی ہوس میں بیانات سب کے ہیں اگر میں نہ رہا تو میرے منہ میں خاک فوج کے ٹکڑے ہو جائیں گے وہ تباہ ہو جائے گی، کبھی کوئی وزیر اعظم سیاسی کارکن ایسا بیان دیتا ہے ۔آپ اندر بیٹھ کر کہتے ہیں میں باہر کچھ اور بات کروں گا آپ نے سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کرنی ہے ۔یہ وہی شخص ہے جو کہتا ہے کہ اگر میں اقتدار میں نہ رہا ،نیوٹرل ساتھ نہیں دیں گے عدلیہ ساتھ نہیں دے گی تو خدانخواستہ پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے،یہ وہی نقشہ ہے جوصدیوں پہلے کھینچا گیا ۔ جو اس پر احسان کرتا ہے یہ اسی کو ڈستا ہے ، ان کے دوست بھی جانتے ہیں، میں نے جب اس کے ساتھ سیاسی سفر شروع کیا تو مجھے ایک سال میں ہی سمجھ آ گئی تھی ۔