قوم کو مبارک ہو کہ ملت کے معاشی ہونہار سپوت، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما ،سابق وزیر خزانہ اور (تین سال سے بغیر حلف اٹھائے) سینیٹر اسحاق ڈار نے یہ نوید مسرت دے دی ہے کہ وہ اسی مہینے(جولائی میں) پاکستان میں قدم رنجہ فرمانے والے ہیں۔اس "تہلکہ خیز "خبرکو جاری خرنے کیلئے انہوں نے معروف عالمی خبریاتی ادارے بی بی سی کا انتخاب کیا تاکہ ان کے پاکستانی ہم وطنوں کے اذہان میں کوئی ابہام نہ رہے۔اسحاق ڈار جو2017ء سے لندن میں "مقیم ” تھے کی واپسی کی خبر سن کر مہنگائی کی ماری عوام کی باچھیں اس امید پر کھلنے کو بے قرار ہیں کہ اسحاق ڈار جن کے پاس منہ زور ڈالرکی اڑان کو قابو کرنے والی گیدڑ سنگھی موجود ہے وہ پھر سے ڈالر کی اڑان کو روک لیں گے۔ان کی اس لیاقت کے پیش نظر بعض لوگ انہیں ڈالر کا مہاوت بھی قرار دیتے ہیں۔ اسحاق ڈار معاشی رموز کے اتار چڑھاؤسے بخوبی واقف ہیں۔موصوف معیشیت کے ظاہری اور پوشیدہ امور سے واقفیت میں ید طولی رکھتے ہیں ۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ معیشت کے ہر ہر اسرار و رموز سےواقف ہیں تو بے جا نہ ہوگا،حتی کہ معاشی چور دروازوں کے بارے میں بھی وہ اتنا جانتے ہیں کہ بڑے سے بڑا معاشی ماہر بھی نہ تو ان کو دھوکہ دے سکتا ہے اور نہ ان کی "تراکیب ” کو جان سکتا۔ان کی یہ قابلیت اس وقت ظاہر ہوئی جب پاکستان میں پانامہ کی گتھی سلجھانے کا عمل شروع ہوا ۔اس گتھی کو سلجھانے والے اس وقت چکرا کر رہ گئے جب انہوں نے شریف خاندان میں تحفے میں رقوم دینے کا کھوج لگانے کی کوشش شروع کی۔برطانیہ سے چارٹڈ اکائونٹنٹ بننے والے اسحاق ڈار صرف معاشی امور پر ہی منفرد دسترس کے مالک نہیں بلکہ وہ پاکستان کے ان "چمتکاری” سیاستدانوں میں سے ہیں کہ جو بیرون ملک رہتے ہوئے اور زیر سماعت مقدمات کی موجودگی میں بھی سینیٹر بن جاتے ہیں۔یہ الگ بات کہ انہیں سینیٹر بنے تین برس سے زیادہ بیت گئے ہیں لیکن انہوں نے سینیٹر کا حلف اٹھانے کی کوشش ہی نہیں کی۔یہ حلف وہ اس وجہ سے نہ اٹھا سکے کہ ان کے بقول بوجہ "علالت وعلاج” وہ پاکستان آنے قاصر تھے۔شو مئی قسمت کہ ان کی غیر موجودگی میں عدالت نے ان کو اشتہاری بھی قرار دے دیا۔ان دوہری وجوہات کی وجہ سے بے چارے اسحاق ڈار نہ وطن واپس لوٹے نہ ہی انہوں نے اپنی سینیٹر شپ کا حلف اٹھایا۔ انہوں نے اپنے حلف کی خواہش کا ماضی میں تو زیادہ شدت سے اظہار نہیں کیا تھا لیکن اب جب عمران خان کی حکومت کا بوریا بستر گول کر دیا گیا ہےتو شہباز حکومت میں ان کے دل میں یہ امنگ زیادہ شد ومد کے ساتھ جاگی کہ وہ وطن عزیز واپس جاکر ایک بار پھر ڈالر کے مہاوت بن کر ڈالر پر قابو پائیں اور ساتھ ہی اپنی سینیٹر شپ کا حلف بھی اٹھا لیں۔ یہاں کنفیوژن یہ پیدا ہوتی ہے کہ شہباز حکومت تو اپریل میں قائم ہوئی تھی لیکن اسحاق ڈار کا دل جولائی میں کیوں گدگدانا شروع ہوا۔اس کا ایک سیدھا سادہ جواب تو یہ ہے کہ اسحاق ڈار کا "علاج” بھی اپنے سمدھی نواز شریف کی طرح مکمل نہیں ہواتھا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اللہ پوچھے ان عدالتوں کو جنہوں نے ملک کے اس سپوت کو ان کی غیر موجودگی اشتہاری قرار دیدیا جو سابق وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے سرکاری طیارے میں باقاعدہ پروٹوکول کے ساتھ پہلے سعودی عرب اور پھر برطانیہ چلے گئے۔ملک میں اس وقت ان کی اپنی جماعت کی حکومت قائم تھی لیکن یہ بھی اسحاق ڈار کی دور اندیشی تھی کہ وہ معیشت کی طرح "تفتیشیوں "کی اڑان بھی بھا گئے۔اب جب ان کی واپسی میں تاخیر یا علاج میں طوالت ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ نئی حکومت کو مہنگائی بڑھانے کے علاوہ جو ضروری کام کرنا تھا وہ نیب قوانین کا ڈھنگ نکالنا تھا۔ مقام شکر ہے کہ نئی حکومت مہنگائی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ نیب کا ڈنگ نکالنے میں کامیاب ہوگئی ہے تو بیرون ملک موجود اسحاق ڈار بھی صحتیاب ہو گئے ہیں جبکہ نیب قانون کو فتح کرنے کے بعد اب توقع ہے کہ باقی ماندہ مریض بھی صحتیاب ہوجائیں گے ۔سردست واپسی کا انکشاف اسحاق ڈار نے کیا ہے جو پاکستان آتے ہی ڈالر پر دم ڈالیں یا نہیں لیکن سینیٹر کا حلف اٹھاتے ہی وہ پاکستان کو اچھے خاصے مہنگے پڑ جائیں گے ۔ان کی تین سال سے زائد کی تنخواہ لاکھوں بلکہ مراعات کے ساتھ کروڑوں میں اس قوم کو پڑے گی۔اس اعتبار سے اب اسحاق ڈار جلد وطن میں تو ہوں گے لیکن ان کی "مخدوش ” صحت کی وجہ یہ دھڑکا تو لگا رہے گا کہ نہ جانے کب انہیں اپنے غیر ملکی معالجین کی ضرورت پڑ جائے۔ایسی صورت میں اگر انہیں جانا بھی پڑ گیا تو سینیٹ والے ایمانداری سے ان کی تنخواہ اور مراعات انہیں منتقل کرتے رہیں گے۔اس طرح ڈالر کا یہ مہاوت قومی خزانے کو کروڑوں کا پڑے گا۔قوم کو سینیٹر میں یہ اضافہ مبارک ہو۔ساتھ ہی یہ ان کی صحت کی سلامتی کی بھی دعاءکی جانے چاہئے تاکہ اسحاق ڈار واپس نہ چلے جائیں ۔ویسے بھی اپنی واپسی کے اعلان کے موقع پر انہوں نے حفظ ماتقدم کے تحت بی بی سی کو بتا دیا ہے کہ اُن کی صحت کو درپیش چند مسائل کا علاج اگلے 10 سے 12 روز میں مکمل ہونے کی توقع ہے کیونکہ اُن کے ڈاکٹرز اگلے چند روز میں اُن کے علاج کے مکمل ہونے کے بارے میں پُرامید ہیں۔یاد رہے کہ ستمبر 2017 میں پاکستان کی ایک احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے مقدمےمیں اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی جس کے چند روز بعد اسحاق ڈار پہلے سعودی عرب روانہ ہوئے اور وہاں سے علاج کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ان کی عدم موجودگی میں نومبر 2017 میں احتساب عدالت نے اُن کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کئے اور انھیں "مفرور” قرار دے کر، عدالت نے اُن کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی نیلامی کا بھی حکم دیا تھا۔