کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کا شعبہ واٹرمین ٹرنک (WTM)غیر قانونی کنکشن کا گڑھ، گھناؤنے کاروبار میں افسران و عملہ پانی چوری میں ملوث ہے۔ لاکھوں کروڑوں روپے رشوت و کمیشن لیکر کراچی کا پانی چوری، ادارہ کا شہر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا عمل جاری ہے،یہ ادارہ کراچی میں پانی کا بحران کا اصل ذمہ دار ہے WTM کے ایکسن و قائم مقام سپرٹینڈنٹ انجینئر تنویر شیخ کی مجرمانہ سرگرمیاں عروج ہیں۔کراچی میں چھوٹے بڑے کنکنشن میں اس کا نام لیا جاتا ہے ان کا یہ عمل اب ایک مافیا کی شکل اختیار کرچکا ہے، غیر قانونی کنکشن والے بلڈرز اور صعنتی اداروں سے رمضان میں عیدی وصولی کا سلسلہ بھی جاری ہےادارے کے قانون کے تحت کسی لائن بشمول 84،72،66،48،36اور24 سے پانی کے عام و تجارتی اور صنعتی کنکشن پر غیر قانونی کنکشن بغیر قانونی تقاضہ پورے کیئے پانی کا کنکشن دینے کا غیر قانونی عمل جاری ہے۔ دو سے تین یوم کی تعطیلات کے دوران غیر قانونی کنکشن کا کاروبار و دھندہ عروج پر ہوتا ہے، لیاری ندی سے 13 ڈی گلشن اقبال میں گوہر پروجیکٹ کے نام پر چار کنکشن غیر قانونی تاحال رمضان میں جاری ہے،اس منصوبے پر پانچ کروڑ روپے سے زائد رشوت و کمیشن وصول کرنے کا دعوی کیا جارہا ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ آغا خان ہسپتال میں کنڈیوٹ 66 انچ کی لائن سے 24 کنکشن غیر قانونی طور پر ادارے کے افسران نے اپنی نگرانی میں لگایا یہ لائن نیو ٹاون تک جانی تھی لیکن اسے ہسپتال کے ورکشاپ میں بند کردیا گیا۔ ہسپتال کی 8 انچ قطر لائن ہے اس لائن کو استعمال کررہے ہیں۔ جس سے ادارے کو 40 کروڑ روپے کے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے۔اس کی تمام فائلیں بھی WTM سے غائب کردی گئی ہیں۔ ہسپتال سے دو دو کروڑ روپے رشوت وصول کرنے کی تصدیق افسران کررہے ہیں۔ ادارے کی ایک تحریری رپورٹ میں غیر قانونی پانی کنکشن کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات کیئے گئے ہیں۔ جس میں کراچی کمپلیکس گلستان جوہر میں واقع کثیر المنزلہ بلڈنگ میں گزشتہ سال شہزاد نامی کنٹریکٹر (تنویر شیخ کا پھوپھی زاد بھائی) FTM 48 انچ کی لائن میں تین انچ قطر کا کردیا گیا تھا جس کو سابقہ ایکسی این اور آفسیٹ AEE منہاج نے رکوایا تھا پھر اسی کنکشن کو دوبارہ عرفان اللہ کی مدد سے چھ ماہ بعد اسی کنکشن کو دوبارہ لگانے کی کوشش کی گئی۔ گذشتہ ہی سال آفشیٹ AEE کو سابق ایکسیئن عرفان اللہ نے84 انچ قطر لائن سے چار چار انچ قطر غیر قانونی کنکشن کی خبر گشت کرنے پر FTM کی سائیڈ سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد CEO نے حقائق سننے کے بعد منہاج ابرہیم کو Restore کردیا تھا بعد ازاں عرفان اللہ کو CEO نے explanation لیٹر جاری کیا اب تیسری مرتبہ اسی کنکشن کو کاغذات میں ٹیمپرنگ کرکے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ اب لگ چکا ہے، اس واردات کے ماسٹر مائنڈ آفشیٹ سپریڈنٹ انجنئیر تنویر شیخ موجودہ ایکسیئن FTM اعجاز عالم ہے اس نے 21مارچ 2024 کو غیر قانونی طور پر اس کی منصوبہ بندی کی۔ تنویر شیخ کا فرنٹ مین عثمان اور غفار کراچی کمپلیکس کے بلڈرز سے ایک کروڑ 90 لاکھ روپے رشوت کی مد میں لے چکا ہے۔کراچی کمپلیکس کا کنکشن گوہر اپارٹمنٹ کی آڑ میں تنویر شیخ کی سربراہی میں لگانے کی ایک بار پھر تیاری ہو رہی ہیں رپورٹ میں موصول ہونے والی دستاوئزات میں اس کام کو بجا لاتے ہی موجودہ ایکسیئن اعجاز عالم اپنا ٹرانسفر حب کینال پر کرالینگے جس کی آزادانہ تحقیقات نہ ہونے کی وجہ تنویر سیخ سمیت دیگر افسران WTM کو بچالیا گیا تھا۔قائم مقام سپرٹنڈنٹ انجینئر تنویر شیخ ولد حافظ رفیق احمد امیپلائز نمبر022399-9 شناختی کارڈ نمبر42101-1729461-3 جو کہ WTM میں تعینات کیا گیا اپنے فرنٹ مین عثمان اور غفار (KDC-1)اور ذاتی نوکروں کے ساتھ مارچ 2023ء میں لانڈھی میں آپریشن کیا جہاں پاپنس، ہیوی موٹرز قبضہ میں لیں اور دو اپریل 2023ء کو رات دو بجے بن قاسم میں آپریشن کیا یہاں سے نکلنے والی مشیری، پاپنس جو کہ مجموعی وزن 3120 کلو ہے شجن کاٹنے کی رسید موجود ہے۔ 3 اپریل 2023 کو غیر قانونی سپروائزر کو عہدے پر تعینات کر رکھا ہے اور گھناونے کاروبار کا لائنس دے رکھا ہے۔غفار کے منہ بولے بھانجے اسامہ کمپنی اور ایان انٹرپرئز اس پر جعلی لیکج کی فائلیں اوردیگر ٹھیکوں کے بلز ادارہ سے لوٹ مار کررہے ہیں۔ دوسری طرف تنویر شیخ کا اپنا بیٹا ایان انٹرپرائز ان دونوں کمپینز کو تنویر شیخ اس کی خود نگرانی کرتے ہیں۔ گذشتہ سالوں اور حالیہ بوگس بلوں کی فارنزک آڈٹ کرائی جائے تو ادارے میں ڈاکا ڈالنے والے بے نقاب ہونے کا امکان ہے۔ان ہی دنوں میں عثمان اور غفار تنویر سیخ کی ہدایت پر بھینس کالونی پہنچے وہاں باڑے والے غیر قانونی کنکشن کا گھناونا کاروبار تیزی سے جاری ہے،بھینس والے کو کارساز میں دفتر آنے پر اگلے دن چار چار انچ قطر لائن چوڑ دیا گیا جن سے 80 لاکھ روپے فی کس وصول کیا گیا۔ تنویر شیخ سپرہائی وے میں اسکیم 33 کی ایک 36 کی لائن صفاء ڈریم سوسائٹی شفٹنگ مسترد ہونے کے باوجود غیر قانونی بلڈر کو فائدہ پہنچانے کے کیس میں رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود اصل کردار تنویر سیخ، محمد عامر پیجر، ندیم کرمانی انظامیہ کی نااہلی و عدم دلچسپی کی وجہ سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ تنویر شیخ کو بلڈر کے خلاف FIR تین دن میں درج کرنے کو حکم دیا گیا تھا بلڈر سے الگ 50 لاکھ روپے وصول کر کے خاموشی اختیار لی گئی ہے۔بتایا گیا ہے کہ جرم نہیں ہوا اس کے خلاف درج کرنے سے ادارے کا ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خدشہ ہے،رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شیر شاہ پر ہائیڈرنٹ جو اسکی حدود میں نہیں تھی وہاں سے تین ٹرک پاپنس، ہیوی مشینری اور دیگر مسررقہ سامان ضبط سرکار ہونے کے باوجود اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعہ 20مارچ 2024ء کو اچانک تمام سامان رات میں چوری کر کے فروخت کردیا گیا۔ سامان کی فہرسٹ اور ویڈیو موجود ہے، CEO نے واضح کیا تھا کہ پکڑے گئے ضبط شدہ سامان رینجرز اور ادارہ کے سیکورٹی اداروں کے تصدیق کے بعد فروخت کیا جائے گا جس پر تاعملدآمد نہیں ہو رہا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سہیل نامی ملازم اپنے بیٹے کا ڈرائیور بنا دیا گیا ہے وہ چار گاڑیاں مع پیٹرول اپنے نام پر وصول کررہا ہے۔بھینس کالونی کے باڑے میں دو دو انچ قطر کنکش ایک کروڑ 40 لاکھ روپے،میمن سوسائٹی کو 13غیر قانونی کنکشن میں چار پانچ کروڑ روپے،ہائی وے میں دو باڑے کو دو دو کروڑ روپے لے کر چار کنکشن دیئے گئے، اسکیم 33 کی کراچی کمپلیس کو تین غیر قانونی کنکشن دے کر دو تا تین کروڑ روپے وصول کیئے گئے جس میں ایک کنکشن قانونی تھا۔منگھوپیر میں ماربل فیکٹری کو چار کنکشن غیر قانونی دیکر دو کروڑ روپے وصول کیئے گئے۔اس بارے میں تنویر شیخ کا کہناہے کہ کام کرنے والوں پر الزامات لگتے ہیں ہم اپنا کام کرت رہے گےاس ضمن میں قومی احتساب بیورو کراچی، اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کراچی سمیت تحقیقاتی اداروں نے بھی سنگین خلاف ورزی پر چمک کے ذریعے اپنی آنکھ اور کان بند رکھا ہے اور متعدد تحقیقاتی رپورٹ سردخانے کی نذر کر دی گئی ہے۔جس کے نتیجے میں چھوٹے بڑے افسران کی ہرسطع پر لوٹ مار عروج پر ہے۔ہر افسر نے پانی کے کنکشن میں دستخط کرنے کی رقم مقرر کردی ہے، موجودہ مینجنگ ڈائریکٹر سید صلاح الدین نے دعوی کیا تھا کہ ماضی میں ہونے والے غلطیوں پر وہ باز پرس نہیں کریں گے آئندہ غیر قانونی کنکشن اور غیرکاموں میں ملوث افسران و ملازمین کو عبرت کا نشان بنادیں گے۔ مینجنگ ڈائریکٹر سید صلاح الدین کی کارکردی صفر ہے اب تک کسی ایک ملازم کو انجام تک نہیں پہنچا یا گیا۔