اسلام آباد: (نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ نےاسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس ک اعلامیہ جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جمعرات کو یہاں جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) کو 25 مارچ 2024ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لکھا گیا ایک خط 26 مارچ 2024ء کو موصول ہوا۔ مذکورہ خط میں لگائے گئے الزامات کی سنگینی کے پیش نظر چیف جسٹس نے اسی دن ایک میٹنگ طلب کی۔چیف جسٹس آف پاکستان کی رہائش گاہ پر چیف جسٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام ججز کا اجلاس ہوا۔ افطار کے بعد رات 8 بجے تک ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی میٹنگ میں تمام ججز کے تحفظات کو انفرادی طور پر سنا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اگلے روز 27 مارچ 2024ء کو چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل اور وزیر قانون سے ملاقات کی اور اس کے بعد سی جے پی نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور اسلام آباد میں موجود پاکستان بار کے سینئر ترین ممبر سے بھی ملاقات کی۔مزید یہ کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام ججز کا فل کورٹ اجلاس اسی دن شام 4 بجے چیف جسٹس کی سربراہی میں بلایا گیا۔ فل کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے بھیجے گئے خط میں اٹھائے گئے مسائل پر غور کیا۔ فل کورٹ کے ارکان کی اکثریت میں اتفاق رائے پیدا ہوا کہ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر چیف جسٹس وزیراعظم پاکستان سے مذکورہ خط میں اٹھائے گئے مسائل پر ملاقات کر سکتے ہیں اور اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے ہمراہ (آج) جمعرات 28 مارچ 2024ء کو دوپہر 2 بجے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس، سینئر ترین جج اور رجسٹرارسپریم کورٹ سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی۔ چیف جسٹس نے واضح طور پر کہا کہ ججز کے معاملات اور عدالتی کام میں ایگزیکٹو کی مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی اور کسی بھی صورت میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیا جا سکتا۔ انہوں نے اور سینئر ترین جج نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ایک بنیادی ستون ہے جو قانون کی حکمرانی اور مضبوط جمہوریت کو برقرار رکھتا ہے۔مزید برآں اجلاس کے دوران پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ 2017ء کے تحت ایک انکوائری کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی گئی جس کی سربراہی کسی ریٹائرڈ جج کو دی جائے جو اس معاملہ کی انکوائری کرے۔ وزیراعظم نے عہد کیا کہ مذکورہ کمیشن کی تشکیل کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا جائے گا۔وزیر اعظم نے چیف جسٹس اور سینئر ترین جج کے خیالات کی مکمل تائید کی اور انہیں مزید یقین دلایا کہ وہ آزاد عدلیہ یقینی بنانے کے لیے دیگر مناسب اقدامات کریں گے جس میں متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کرنا اور از خود نوٹس کیس 7/2017 (فیض آباد دھرنا فیصلہ) کے پیراگراف 53 کے مطابق قانون سازی شروع کرنا شامل ہے۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے اس کے بعد گزشتہ ملاقات کے تسلسل میں چیف جسٹس نے دوبارہ فل کورٹ میٹنگ بلائی اور ججز کو وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات سے آگاہ کیا۔