کراچی(ارپورٹ۔اسلم شاہ) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پانچ سال سے بند 65 ملین گیلن (65+65=130) پانی کے منصوبہ پر فیصلے کرنے میں ناکام ہونے پر اس گرمی کے موسم میں پانی کے بحران کا شدت اختیار کرنے کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ٹھیکہ منسوخ کرنے سے 35 کروڑ روپے ضائع ہوگئے،منصوبے کا حتمی فیصلہ سندھ حکومت کرے گی۔ تاخیر سے منصوبہ کی لاگت 6 ارب روپے سے بڑھ کر 24 ارب روپے تک بڑھنے کی توقع ہے، یہ فیصلے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی تیسری بورڈ میٹنگ میں 22 مارچ کو جاری کیئے گئے ہیں۔ اجلاس چیئرمین و میئر کراچی مرتضی وہاب کی سربراہی میں ہوا۔ اجلاس میں عائشہ حمید اسپیشل سیکریٹری بلدیات سندھ،تبریز مری ڈپٹی سیکریٹری فنانس سندھ،خالد محمود صدیقی رکن منصوبہ بندی و ڈیویلپمنٹ سندھ،محمد سلیم راجپوت کمشنر کراچی،سلیم اللہ اڈو ڈائریکٹر جنرل کچی آبادی سندھ، ظفر صہبائی، عبدالکبیر قاضی، تنزیل پیرزادہ، پروفیسر ہما ناز اور سید صلاح الدین مینجنگ ڈائریکٹر KWSC شریک ہوئے۔65 ملین گیلن پانی کے منصوبے میں مجموعی طور پر 21 کلومیٹر میں 16 کلومیٹر ہالیجی سے پیپری تک اوپن کینال تعمیر کیا جانا ہے۔ نیشنل لاجسٹک سیل نے صرف 15 فیصد تعمیراتی کام مکمل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔بورڈ میٹنگ میں پروجیکٹ ڈائریکٹر 65 ایم جی ڈی ظفر پلیجو نے استدعا کی تھی کہ منصوبہ کے جاری اخرجات کا تصفیہ کیا جائے جن میں ٹھیکہ دار NLC – 145.081 روپے اور کنٹریکٹر حاجی سراج الدین سومرو کا ,21.817 ملین روپے کے ساتھ کنسلٹنٹ ای اے پرائیویٹ لمیٹڈ کی رقم 185.636ملین روپے ادائیگی کی جا چکی ہے، جبکہ نسپاک کنسلٹنٹ نے استدعا کی ہے کہ پانی کے مجموعی کوٹہ 1200 میں 130 ملین گیلن پانی کم ہے اس لئے مکمل منصوبہ بنایا جائے۔ کینجر جھیل گھارو کینال سے سی او ڈی فلٹر پلانٹ تک منصوبہ تشکیل دیاجائے۔رپورٹ میں کراچی کو فراہمی آب میں کہا گیا ہے کہ کراچی کو کوٹہ سے کم پانی فراہم کیا جارہا ہے جن میں 9 MGD کینجر جھیل اور 49 MGD گجرو کینال اور 42 MGD بلک سپلائی واٹر رساؤ اور چوری کے باعث ضائع ہو رہا ہے۔ اب 65 ملین گیلن پانی کے بجائے منصوبہ 130 MGD پانی کے منصوبے کو براہ راست موجود لائنوں میں بنایا جائے۔رپورٹ کے مطابق انڈس سے پانی کی فراہمی کے منصوبے میں پہلے فیز میں 1959ء میں 10ملین گیلن دھابے جی، دوسرے فیز میں 1971ء میں 77 ملین گیلن دھابے جی، تیسرے فیز 1978ء میں 80 ملین گیلن دھابے جی، چوتھے فیز میں 1997ء میں 82 ملین گیلن دھابے جی، K-2 منصوبہ 96 ملین گیلن 1998ء دھابے جی، K-3 منصوب100ملین گیلن 2006ء،گھارو سے 29 ملین گیلن 2003ء اور حب ڈیم سے 100 ملین گیلن 1984ء فراہم کیا جارہا ہے جبکہ 26 ملین گیلن پاکستان اسٹیل، 7.5ملین گیلن پورٹ قاسم اتھارٹی اور مجموعی طور پر انڈس سے 49 کروڑ 80 لاکھ گیلن اور حب ڈیم سے 10 کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جارہا ہے۔ کراچی کا انڈس سے 1200 کیوسک یعنی 65/65 کروڑ 40 لاکھ گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کے کوٹہ میں 130کروڑ گیلن پانی میں بچ جانے والے پانی کا منصوبہ زیر التواء ہے۔سندھ حکومت کی جانب سے پانچ سال قبل ایک بار پھر کراچی کے پانی کا منصوبہ 65 ملین گیلن یومیہ ختم کردیا گیا ہے۔اس ضمن میں صوبائی حکومت کے محکمہ بلدیات کے ایک افسر نے تصدیق کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ پانی اور سیوریج کے کئی منصوبے پر ورلڈ بینک ٹیم کام کررہی ہے لیکن اس میں 65 ایم جی ڈی کا منصوبہ شامل نہیں ہے۔منصوبے کی منسوخی کے بارے میں افسران نے دریافت کیا تو بتایا گیا کہ منصوبہ عملی طور پر منسوخ کردیا گیا ہے۔ تاخیر ہونے کی بنا پر اس منصوبہ کی لاگت 11,165.8 ملین روپے لگائی گئی تھی۔اس پروجیکٹ پر تاحال کام بند ہے، اس پروجیکٹ کے دو حصوں کو کنٹریکٹ پر دے دیا گیا ہے۔ اس پروجیکٹ کی فراہمی آب پر پانی صاف کرنے کا فلٹریشن کا نظام نہ ہونے، بجلی کی تنصیبات، پمپنگ، اور ملیر سعود آباد،لانڈھی،کورنگی اور صنعتی ایریا کو پانی کی سپلائی کا متبادل نظام نہیں رکھا گیا تھا۔واضح رہے کہ سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں 1200 کیوسک پانی کراچی کو ملنے والا کوٹہ آب کا منصوبہ 1980ء کا معاہدے آب اب تک کا مکمل نہ ہوسکا۔ کراچی میں پانی کا بحران دن بدن شدت اختیار کررہا ہے۔کراچی میں پانی کے کوٹہ میں 13 کروڑ کی کمی، 18 کروڑ گیلن پانی چوری،رساؤ کی تصدیق نسپاک کنسلٹنٹ کمپنی نے ورلڈ بینک کی رپورٹ میں پیش کر دی ہے۔کینال، نہر سے پانی کی کھلے عام چوری، کنڈیوٹ لائن، سائفن، پائپوں سے چوری اور رساؤ کا سلسلہ جاری ہے جس سے کراچی کو پانی کی سپلائی میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جارہا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سابق ناظم کراچی سید مصطفی کمال کے دور 2009-10 میں پی سی ون حکومت سندھ کے سپرد کی گئی تھی۔2013-14 میں حکومت سندھ نے 65 ملین گیلن پانی کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ اس کے بعد 2014-15 میں پی ڈی ڈیلبو پی نے منظوری دی اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 5,978 ملین پہنچ گیا۔تاخیری حربوں (کک بیک اور کمیشن کے چکروں) کی وجہ سے کام میں 186 فیصد لاگت میں اضافہ ہوچکا ہے، جبکہ منصوبے کا 2018ء میں آغاز کیا گیا تو اس کی لاگت مجموعی طور پر 5,978.693 ملین روپے سے بڑھ کر 11,165.80 ملین روپے ہوگئی ہے۔104ملین روپے 50 فیصد موبائلز انڈونس فنڈز میسرز NLC کو پیکیج ون اور 140 ملین روپے میسرز حاجی سراج الدین سومرو کو دوسرے حصے کی ایڈوانس ادائیگی کردی گئی ہے۔پروجیکٹ کا مجموعی کام 15 فیصد بتایا جاتا ہے۔یہ کام 18 ماہ کی قلیل مدت میں جون 2019 میں مکمل کیا جانا تھا۔واضح رہے کہ جاپان کی تنظیم جائیکا کے پانی و سیوریج پر کراچی کا ماسٹر پلان 2007ء میں بنایا گیا تھا،لیکن آبادی کے تیزی سے بڑھنے کے دباؤ کی وجہ سے تاحال کراچی میں 650 ملین گیلن پانی کی یومیہ کمی ریکارڈ پر موجود ہے۔ڈیفنس سٹی (فیز نائن) سپرہائی وے، بحریہ ٹاون، فضائیہ ہاوسنگ، ائیرپورٹ سیکورٹی فورس ہاوسنگ پروجیکٹ،نیول ہاوسنگ، ایجوکیشن سٹی، تیسر ٹاون،شاہ لطیف ٹاون، ہاکس بے اسکیم، نجی بلڈرز ہاوسنگ پروجیکٹ، پرائیویٹ ہاوسنگ سوسائٹیز، نئے صنعتی زون،نادرن بائی پاس سمیت دیگر رہائشی اور تجارتی منصوبے میں پانی کی کمی کا سامنا ہے۔انڈس کے مختلف ذرائع سے ملنے والے پانی کینالوں، سائفن،کنڈیوٹ اور کراچی تک پہنچنے والے پمپنگ اسٹیشنوں تک پانی کے اعداد وشمار میں فرق موجود ہے۔ ماضی میں کراچی کو ملنے والے کوٹے پر جانچ پڑتال اور نگرانی سمیت تمام کاموں پر کراچی سسٹم کے تحث کک بیک و کمیشن کے چکروں کی وجہ سے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔سندھ حکومت جو مسلسل 16 سالوں سے قائم ہے جو دنیا کے جمہوری ملکوں میں طویل عرصے تک رہنے کا عالمی ریکارڈ ہے لیکن اس حکومت سے کراچی کے پانی کا مسئلہ حل نہ ہو سکا کیونکہ مبینہ طور پر اس پر الزام ہے کہ اس کا کام کے بجائے کک بیک اور کمیشن پر ہی نگاہ رہتی ہے اسی لیئے کام سندھ حکومت کی ترجیح میں کبھی بھی شامل نہیں رہی۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کراچی منصوبہ کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے 40پہلے کراچی پانی کا کوٹہ کی حصول میں تاخیری حربے اختیار کر رکھا ہے دوسری جانب ارسا نے کراچی کا نیا کوٹہ کی درخواست سندھ حکومت کی مسترد کردیا ہے اس کے باوجود 26کروڑ گیلن پانی کا منصوبہ K4 پر واپڈا پر کام جاری ہے