اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک:کورٹ رپورٹر )سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا۔عدالتِ عظمیٰ نے فیصلہ غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے 23 جنوری کو شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنا دیا۔عدالتِ عظمیٰ نے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش کالعدم قرار دے دی۔سپریم کورٹ نے صدر کی جانب سے جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے 23 صفحات کا فیصلہ تحریر کیا۔سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بحال نہیں کیا جا سکتا، انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے۔عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی بطور جج اسلام آباد ہائی کورٹ ریٹائر اور تمام مراعات و پنشن کے حق دار ہوں گے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت صدیقی کو فیئر ٹرائل کا موقع فراہم نہیں کیا، جسٹس شوکت صدیقی نے بلاشبہ جنرل فیض حمید اور دیگر اہلکاروں پر عدلیہ میں مداخلت کے سنگیں الزمات عائد کیے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی نے احتساب عدالت اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے حساس مقدمات میں مداخلت کے الزمات عائد کیے، شوکت صدیقی کو فیس ٹو فیس الزمات ثابت کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا، عدالت نے ان افراد کو نوٹس جاری کیے جن پر شوکت صدیقی نے مداخلت کے الزمات عائد کیے تھے، ان تمام افراد نے شوکت صدیقی کے عائد الزمات کی تردید کی۔فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے الزمات کی انکوائری کرنے کی بجائے فرض کیا کہ جسٹس شوکت صدیقی کے الزمات غلط ہیں، مفروضے کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کو جوڈیشل مس کنڈکٹ کا مرتکب قرار دیا۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل پر لازم تھا کہ وہ جسٹس شوکت صدیقی کو الزمات ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتی، جسٹس اخلاق، جسٹس شوکت علی، مظاہر نقوی کے مقدمات میں فیصلے شہادتوں کی بنیاد پر ہوئے، سپریم جوڈیشل کونسل نے شہادتیں ریکارڈ کرنے کے بعد برطرفی کے فیصلے دیے۔فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ حال ہی میں مظاہر علی اکبر نقوی کے کیس میں بھی 14 شہادتیں ریکارڈ کی گئیں، مظاہر نقوی کیس میں گواہوں نے متعدد دستاویزی شہادتیں پیش کیں، گواہوں پر جرح کا موقع فراہم کیا گیا۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف کرتے ہوئے جسٹس شوکت صدیقی کو فیئر ٹرائل اور ڈیو پراسس فراہم نہیں کیا، جسٹس شوکت صدیقی کو قانون کے مطابق موقع فراہم نہ کر کے ان کی ریپوٹیشن کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔فیصلے کے مطابق آئینی اور قانونی تقاضے پورا نہ کرنے کی وجہ سے آرٹیکل 211 کا اس کیس پر اطلاق نہیں ہوتا، آرٹیکل 184/3 کے تحت برطرفی کے فیصلے کے خلاف آئینی درخواستیں قابلِ سماعت ہیں۔سپریم کورٹ کا اپنے فیصلے میں کہنا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے نہیں بتایا کہ جسٹس صدیقی عدالتی ضابطۂ اخلاق کی کس شق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جسٹس شوکت صدیقی نے فیض حمید اوران کے ماتحت اہلکاروں کے خلاف سنگین الزمات عائد کیے، سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کے مقدمات کا فیصلہ خاص انداز میں کرنے کے الزامات تھے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل انکوائری کے بعد الزامات غلط قرار دیتی تب شوکت صدیقی جوڈیشل مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوتے، بغیر انکوائری یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا تھا کہ شوکت صدیقی کے الزمات غلط ہیں، شوکت صدیقی نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ پر بھی الزمات عائد کیے تھے۔
سپریم کورٹ کا فیصلے میں کہنا ہے کہ یہ فرض نہیں کیا جا سکتا کہ سینئر پوزیشن پر موجود شخص سچ بول رہا ہے اور جونیئر جھوٹ بول رہا ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کو الزمات کی انکوائری کرنا آئین و قانون کے مطابق لازم تھا، شوکت صدیقی نے شوکاز نوٹس کے جواب میں لکھا کہ انہوں نے پنڈی بار سے خطاب میں جو کہا وہ درست ہے۔فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے کہا ہے کہ شوکاز نوٹس کے جواب میں شوکت صدیقی نے طاقت ور لوگوں کے خلاف مزید الزمات بھی عائد کیے، کونسل کو جسٹس شوکت صدیقی کا حلفیہ بیان لے کر الزمات کو ثابت کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے تھا، جن پر الزمات عائد کیے گئے تھے انہیں شوکت صدیقی پر جرح کرنے کا موقع فراہم کیا جاتا۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیض آباد دھرنا، ایگزیکٹ کے ٹی وی چینل کےحوالے سے الزمات تھے، سپریم جوڈیشل کونسل کے ریکارڈ کے مطابق کونسل کو اُس وقت کے آرمی چیف نے 22 جولائی 2018ء کو خط بھی لکھا، خط میں کہا گیا کہ عدلیہ اور پریمیئر ایجنسی پر الزمات عائد کیے گئے ہیں، سابق آرمی چیف نے خط میں لکھا کہ ریاستی اداروں کے تحفظ اور عدلیہ کے وقار کے لیے الزامات کی تحقیقات کی جائے۔فیصلے کے مطابق من و عن انہی الفاظ پر مشتمل خط 24 جولائی 2018ء کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے بھی لکھا گیا، سابق آرمی چیف اور حکومتِ پاکستان کے لکھے گئے خط بالکل ایک جیسے ہیں، خطوط میں شوکت صدیقی کے الزمات کی سچائی جاننے کے لیے قانونی عمل شروع کرنے کی درخواست کی گئی، ناقابلِ فہم ہے کہ اس وقت کے آرمی چیف اور حکومت کی جانب سے شکایات کے باوجود انکوائری نہیں کی گئی، حکومت اور اس وقت کے آرمی چیف کے خطوط کے بعد انکوائری کیا جانا لازم تھا۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی اپنی ابتدائی رائے میں الزامات کی انکوائری کے لیے کہا، حکومتِ پاکستان نے پہلے اپنے 24 جولائی 2018ء کے خط میں الزامات کی انکوائری کا مطالبہ کیا، 10 جون 2021ء کو وفاقی حکومت کی جانب سے ایک اور مختلف بیان عدالت میں داخل کیا گیا، اٹارنی جنرل آفس کے بیان میں کہا گیا کہ ریاستی اداروں کے اہلکاروں پر الزامات بے بنیاد ہیں، حکومت کا یہ بیان اپنے پہلے خط کے بالکل متضاد تھا، اُس وقت کے اٹارنی جنرل انورمنصورخان کا یہ بیان عدالت کے لیے ناقابلِ فہم تھا، اٹارنی جنرل انور منصور نے یہ نہیں بتایا کہ کس طرح حکومت نے یہ طے کیا کہ الزمات بے بنیاد ہیں، اُس وقت کے اٹارنی جنرل انور منصور نے ایسا کر کے اپنی کریڈیبلٹی کو نقصان پہنچایا، اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اُس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کو بھی گمراہ کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر ججوں کا احتساب صوابدیدی اور مبہم انداز میں کیا جائے گا تو اس سے جج کونسل کے رحم و کرم پر ہو گا، سپریم جوڈیشل کونسل نے اٹارنی جنرل انور منصور کا جو مؤقف قبول کیا وہ آئین و قانون کے برعکس ہے، ججوں کے مستقبل کا فیصلہ جوڈیشل کونسل کے ارکان کی پسند نا پسند یا حکومت کے بدلتے رجحانات پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔