اسلام آباد( نمائندہ خصوصی )امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مختلف ممالک کے سفیروں کے اعزاز میں افطار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وسائل کو جنگ وجدل، لڑائیوں اور انسانیت کی تباہی کی نذرکرنے کی بجائے دنیا میں غربت، افلاس، پسماندہ معاشروں کی ترقی،خوشحالی، تعلیم، صحت،امن اور خوراک کے تحفظ پر صرف کرنے کی ضرورت ہے۔اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی تقریب میں امیر جماعت نے گورننس کے موجودہ عالمی نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ یہ نظام بڑی حد تک اخلاقی اقدار سے عاری ہے اور انسانیت کی مشکلات کا حل تلاش کرنے کے بجائے اسے مزید تباہی کا شکار کرنے کاباعث بن رہا ہے۔تقریب میں ترکی، ملائیشیا، برطانیہ، ایران، امریکا، روس، جاپان، عراق، سری لنکا، افغانستان، فلسطین، صومالیہ کے سفیروں اور سفارت خانوں کے سینئر نمائندوں، حماس کے پاکستان میں ترجمان شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، سیکرٹری جنرل امیر العظیم، ڈائریکٹر امور خارجہ آصف لقمان قاضی، سینیٹر مشاہد حسین سید، جنرل (ر) اسد درانی، راجہ ظفرالحق، ڈاکٹر عمرزبیر اور ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اینڈ سٹڈیز ڈاکٹر خالد رحمن، عالمی رفاہی اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی اس موقع پر موجود تھے۔سراج الحق نے کہا کہ موجودہ عالمی نظام عدل اور انصاف فراہم نہیں کر سکتا اور کمزور اقوام کی داد رسی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ موجودہ نظام جن انسانی اقدار کی علمبرداری کا دعویٰ کرتا ہے، عملاً اس کے خلاف چل رہا ہے۔ عالمی گورننس میں اخلاقیات کی عدم موجودگی کی ایک بڑی واضح مثال ہم آج غزہ میں دیکھ رہے ہیں، جہاں 22 لاکھ آباد ی کو گذشتہ 17 برس سے غیر انسانی محاصرے میں رکھا گیا ہے، گذشتہ6 ماہ سے جاری حملوں میں غزہ کی دو تہائی سے زیادہ آبادی اپنے گھروں سے محروم ہو گئی ہے اور مسلسل بمباری کی زد میں ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے قتل عام ہورہا ہے لیکن عالمی نظام کو کسی قسم کی مدد پہنچانے سے روکا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قراردار پیش ہوتی ہے، 13 ممالک جنگ بند کرنے کے حق میں ووٹ دیتے میں لیکن صرف ایک ملک اس کو ویٹو کر کے حملے جاری رکھنے کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔ جنرل اسمبلی کے 153 رکن ممالک قرار دار پاس کرتے ہیں لیکن ان کی رائے کوئی وزن نہیں رکھتی۔ دنیا کے تمام بڑے شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر پر امن احتجاج کرتے ہیں لیکن حکومتیں اس کا کوئی اثر قبول کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ بین اقوامی میڈیا ہاؤسز غیر منصفانہ کوریج اور حقائق کو مسخ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ادارے بھی حقائق دنیا تک پہچانے کے راستے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی واضح قرار دادوں کے باوجود موجودہ عالمی نظام 17ملین کشمیر یوں کو حق خود ارادیت نہیں دلوا سکا اور اس کے نتیجے میں اس خطے میں تاحال کشیدگی موجود اور خطے کی سلامتی خطرے میں ہے۔امیر جماعت نے کہا کہ انسانیت کی سلامتی کا تقاضا ہے کہ گورننس کے عالمی نظام کو عدل،انصاف اور تمام انسانوں کی برابری کی بنیاد پرقائم کیا جائے۔ اس کے لیے ہم سب اپنے اپنے مقام پر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آپ لوگ یہاں اپنے ممالک کی نمائندگی کر رہے ہیں اور اپنی حکومتوں تک یہ آواز پہنچا سکتے ہیں۔سراج الحق نے کہا کہ دنیا میں بھوک اور افلاس کا شکار ہونے والے انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری جانب وسائل عیاشیوں اور لاحاصل جنگوں پر ضائع کیے جاتے ہیں، جو وسائل انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام آسکتے ہیں، وہ انسانی تباہی کا باعث بن رہے۔ گزشتہ دس برس کے مقابلے میں آج دنیا میں زیادہ لوگ خوراک کے شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں، اس کے باوجود کہ اس سلسلے میں بین الاقوامی فورمز پر بہت زیادہ زبانی جمع خرچ کیا جاتا ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں جب کسی خطے پر جنگ مسلط کرنا چاہتی میں تو اس جنگ کے لیے ہزاروں ارب ڈالر فراہم کرتی ہیں،لیکن غربت کے خاتمے اور انسانیت کی فلاح کے لئے چند سوملین ڈالر بھی مشکل سے مہیا ہو پاتے ہیں۔امیر جماعت نے کہا کہ پوری انسانیت کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ دنیا کے مجبور اور محروم لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ عالمی نظام کی ذمہ داری ہے کہ فلسطین اور کشمیر سمیت دنیا کی تمام محکوم اقوام کو غیر قانونی قبضوں سے آزاد کروائیں اور حقوق دلوائے جائیں۔ ہمیں مل کر دنیا میں جنگ، بھوک اور غربت کا خاتمے اور امن، باہمی احترام اور مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔ ہم دنیا کے تمام انصاف پسند ممالک کو اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری کے لئے متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں، ہم مل کر انسانیت کے مشترکہ ایجنڈا پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے تقریب کے شرکا کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ رمضان المبارک روحانی تزکیہ اور تربیت کا مہینہ ہے جس میں ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط بناتے ہیں اور دوسری جانب اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے ساتھ ہمدردی، عفو ودرگزر اور ہمدردی کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ رمضان المبارک ہمیں یہ یاد دہائی کراتا ہے کہ دنیا میں جو محرومی، بھوک اور افلاس ہے، اس کو ختم کرنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ جغرافیائی سرحدوں اور رنگ و نسل اور زبان کی تفریق سے بالاتر ہو کر انسانیت کے بارے میں سوچنا قیادت کی ذمہ داری ہے اور جولوگ یہاں پر جمع میں وہ کسی نہ کسی درجے میں قیادت کے مقام پر ہیں۔ ہم سب مل کر ایک کردار ادا کر سکتے ہیں اور ہمیں کردار ادا کرنا چاہیے۔