کوئٹہ(نمائندہ خصوصی )
1947 سے پہلے بلوچستان میں کُل 114 سکول موجود تھے جن میں 1 ہائی، 16 سکینڈری اور 97 پرائمری سکول موجود تھے اور بلوچستان کی شرح خواندگی صرف 5.5 فیصد تھی۔1970 میں بلوچستان کی پہلی جامعہ، یونیورسٹی آف بلوچستان کا قیام عمل میں لایا گیا اور 1987 میں بلوچستان میں دوسری جامعہ، خضدار یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا قیام عمل میں لایا گیا۔اگر ہم بلوچستان میں تعلیم کا موازنہ آزادی سے پہلے اور حال کے تناظر میں کریں تو آج الحمدللہ بلوچستان میں 15000 سے زائد سکول، 145 کالجز، دو گرلز کیڈٹ کالجز سمیت 13 کیڈٹ کالجز جن میں 2 کیڈٹ کالجز خواتین کیلئے، 5 میڈیکل کالجز،12 یونیورسٹیاں فعال ہیں۔آج بلوچستان کی شرح خواندگی 5.5 فیصد سے بڑھ کر 54.5 فیصد ہو گئی ہے۔ملک بھر میں طالب علموںکو ملنے والی815 سکالرشپس میں بلوچستان کا حصہ 56% ہے۔ہر سال 45000 سے زائد طلبہ عسکری اداروں میں معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔پاک فوج سالانہ 7728 طلباء کو وظائف فراہم کرتی ہے جوکہ 154.98 ملین روپے بنتے ہیں۔آرمی پبلک سکولز سے بلوچستان کے 53 فیصد مقامی طُلبہ مستفید ہو رہے ہیں اور یہ سکول 1050 مقامی اساتذہ کو روزگار بھی مہیا کر رہی ہیں.94 ایف سی سکولز دور دراز علاقوں میں قائم کی گئی ہیں۔ ان سکولوں میں بلوچستان کے 92.5 فیصد مقامی طُلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ 1100 مقامی اساتذہ کو روزگار بھی فراہم کر رہے ہیں۔بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن سے اب تک 16 بیچ فارغ ال تحصیل ہوئے ہیجن میں 2505 طلبات سمیت8959 طُلبہ شامل ہیںبلوچستان میں 965 طُلبہ کیلئے ایک تعلیمی ادارہ جبکہ پنجاب میں 2630 طُلبہ کیلئے 1 تعلیمی اِدارہ موجود ہے۔بلوچستان میں 305 طُلبہ کیلئے ایک استاد جبکہ پنجاب میں 411 طُلبہ کیلئے ایک استاد ہے۔بلوچستان میں ایک کیڈٹ کالج 1,150,000 طُلبہ کیلئے جبکہ پنجاب میں تقریباً 7,100,000 طُلبہ کیلئے ایک کیڈٹ کالج موجود ہےتعلیمی میدان میں اٹھائے گئے ان تمام اقدامات سے بلوچستان روشنی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہے