کراچی( کامرس رپورٹر )ایف پی سی سی آئی کے قائم مقام صدر ثاقب فیاض مگوں نے فیڈریشن ہا ؤس کراچی میں پریس کانفر نس کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی معیشت کو ریکارڈ بلند افراط زر کا سامنا کرنا پڑا ہے اور گزشتہ سال تباہ کن سیلاب کی وجہ سے معاشی سست روی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔ دوہرے ہندسے کی افراط زر کی شرح پاکستان کے سکڑتے ہوئے مالیاتی نقطہ نظر کی وجہ سے مانیٹری پالیسی فیصلوں کے حوالے سے کا روباری برادری میں شدید خدشات کو جنم دیا ہے۔قیمتوں میں تیزی سے اضافے کو بنیادی طور پر سپلائی سائیڈ پر کئی عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے، بشمول بین الاقوامی اجناس کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی سپلائی چینز میں خلل، سیلاب کی وجہ سے فصل کو نقصان، کرنسی کی قدر میں کمی اور ملکی سیاسی غیر یقینی صورتحال۔ ان سپلائی سائیڈ چیلنجز کے باوجود اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے بنیادی طور پر ڈیمانڈ سائیڈ اقدامات جیسا کہ پالیسی ریٹ ایڈجسٹمنٹ کو دو ہندسوں کی افراط زر کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ناکام طور پر استعمال کیا ہے۔ یہ نقطہ نظر بین الاقوامی طریقوں سے متصادم ہے۔افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں اضافے کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے؛ مثال کے طور پر، پالیسی ریٹ میں 1500 بیسس پوائنٹس کے نمایاں اضافے کے بعد بھی اگست 2021 میں 7% سے لے کر فروری 2024 میں 22% تک افراط زر تیزی سے بڑھتا ہی رہا اور ساتھ ہی ساتھ اس عرصے کے دوران افراط زر 8.4% سے بڑھ کر 23.1% ہو گیا؛ جو کہ واضح کرتا ہے کہ پالیسی اقدامات اور افراط زر کی حرکیات کے درمیان کوئی ہم آہنگی موجود نہیں ہے۔IMF کے پروگراموں کی طرف سے تجویز کردہ اقدامات کے عمومی سیٹ پر عمل پیرا ہونے سے پاکستانی معیشت کے اندر بنیادی انفرا اسٹر کچر مسائل کو کامیابی سے حل نہیں کیا جا سکا ہے، جس کی وجہ سے میکرو اکنامک صورتحال بگڑتی چلی جا رہی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں کے دوران، افراط زر اور شرح سود دونوں ہی مستقل طور پر ہمارے ایکسپورٹ میں تقابلی ممالک کی شرح سے تجاوز کر گئے ہیں۔ 22% کی موجودہ زیادہ پالیسی شرح نے کاروباروں کی آپریشنل صلاحیت کو شدید طور پر محدود کر دیا ہے، جس سے مقامی کاروباری برادری کے لیے قرضے لینے کی کاسٹ انتہائی مہنگی ہو گئی ہے۔پاکستان کے نجی شعبے کے لیے قرض کی رسائی، جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر ہمارے علاقائی ہم منصب ممالک سے خاصی کم ہے۔ خاص طور پر ملک کی پالیسی کی شرح خطے میں تمام ممالک سے زیادہ ہے، جس میں قرض کی کل مالیت کے حساب سے 150% تک زرضمانت کی ضروریات بڑھ جاتی ہیں، جو کہ خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کی ترقی کو محدود کرتی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ صرف 7% پاکستانی کا روباری ادارے کمر شل اور رسمی قرض دینے والے اداروں سے منسلک ہیں، جو کہ بھارت میں 21% اور بنگلہ دیش میں 34% کے بالکل برعکس ہے۔ایک لچکدار شرح مبادلہ کے نظام میں منتقلی، جیسا کہ IMF نے تجویز کیا ہے، نے متوقع فوائد بلکل بھی حاصل نہیں کیے ہیں۔ اس کے بجائے اس پالیسی نے پاکستانی روپے کی قدر میں نمایاں اتار چڑھاؤ کو جنم دیا ہے۔ 2019 میں اس نظام کو اپنانے کے بعد سے، روپے کی قدر میں تقریباً 102.25 فیصد کی کمی واقع ہوچکی ہے، جس کا برآمدات اور درآمدات کے درمیان توازن پر کوئی مثبت اثر بھی نہیں پڑسکا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2023 میں پاکستانی روپیہ کو ایشیا کی سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسی قرار دیا گیا ہے۔ تجرباتی شواہد بتاتے ہیں کہ اوسطاً، ڈسکاؤنٹ ریٹ میں 1% اضافہ مہنگائی میں 1.3% اضافہ کرتا ہے اور ملکی قرض کی سروسنگ میں 200 سے 250 ارب روپے سالانہ کا اضافہ ہو جاتا ہے۔اب میں اپنی بات ختم کرنے سے پہلے ان مزید فیکٹرز کا ذکر کروں گا کہ جن کی وجہ سے کاروبار کرنے کی لاگت میں مسلسل اضا فہ ہوئے چلے جا رہے: ان سرفہرست بجلی اور گیس کی قیمتیں ہیں۔جہا ں تک گیس کی قیمتوں کا سوال ہے اس سلسلے میں 2019 میں 786 روپے فی MMBTU پانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹرز کے رجسٹرڈ مینوفیکچررز یا ایکسپورٹرز سے چارج کیے گئے؛ جس میں ان کی کیپٹیو پاور یعنی ٹیکسٹائل (بشمول جوٹ) قالین، چمڑا، کھیل اور آلات جراحی بھی شامل تھیں۔ لہذا، اس طرح اب تک مذکورہ صنعتی یونٹس کے لیے گیس کی قیمتوں میں 249.87 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور کیپٹیو پاور جنریشن میں 173.54 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ اگست 2019 کے گیس ٹیرف کے نوٹیفکیشن کے بعد سے کھاد کے شعبے کے لیے گیس کی قیمتوں میں 432.33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ صنعتی اداروں کے لیے ایسے کاروبار مخالف ماحول میں کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔اگست 2019 میں گیس ٹیرف کے نوٹیفکیشن کے بعد سے سیمنٹ، کمرشل اور جنرل انڈسٹری کے صارفین کے لیے گیس ٹیرف میں بالترتیب 244.56%، 203.98% اور 110.58% اضافہ ہوچکا ہے۔ جہا ں تک بجلی کی قیمتوں کا تعلق ہے تمام دیگر گورننس کی ناکامیوں کے باوجود صنعتی صارفین کے لیے بجلی کی پیداواری لاگت کا تخمینہ 25.86 روپے فی یونٹ ہے؛ لیکن اوسطاً صنعتی صارفین بنیادی ٹیرف کے طور پر 34.47 روپے فی یونٹ ادا کرنے کے پابند ہیں۔ لیکن اگر ہم ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کو شامل کریں تو یہ 40 روپے فی یونٹ سے 45 روپے فی یونٹ کے درمیان بیس ٹیرف بن جاتا ہے۔مالی سال 2020-21 میں صنعتی صارفین نے کراس سبسڈی کی مد میں 81 ارب روپے ادا کیے؛ جبکہ مالی سال 2023-24 کے لیے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ صنعتی صارفین کراس سبسڈی کی مد میں 244 ارب روپے ادا کریں گے۔ایف پی سی سی آئی نے کاسٹ آف ڈوینگ بزنس کو کم کرنے کے لیے کچھ پالیسی سفارشات تیار کی ہیں:اسٹیٹ بینک کو فوری طور پر جنرل افراط زر کی بجائے کور افراط زر پر توجہ دینی چاہیے؛ کیونکہ یہ انفلیشن باسکٹ کے سب سے زیادہ غیر مستحکم اجزاء کو خارج کر دیتے ہیں۔ حکومت کو ایک فعال اور مضبوط کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان؛ ایک مضبوط پرائس کنٹرول مجسٹریسی نظام اور ذخیرہ اندوزی اور بدعنوانی کے خلاف بر وقت کارروائیوں کے ذریعے قیمتوں پر قابو پانے کے اقدامات کو یقینی بنانا چاہیے۔صنعتی صارفین کے لیے بجلی کا ٹیرف علاقائی طور پر مسابقتی نہیں ہے۔ صنعتی صارفین سے بجلی کی اصل قیمت وصول کی جائے جس کا تخمینہ 25.86 روپے فی کلو واٹ آور ہے۔ کراس سبسڈی کے طریقہ کار کو ختم کیا جانا چاہیے؛ جس سے معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔مالی سال 2023-24 کے لیے بجلی کی خریداری کی قیمت کے سلسلے میں 71.8% کے کیپسٹی چارجز میں نمایاں اضافے کی وجہ سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کو قرض کی ادائیگی کی مدت میں توسیع کے لیے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔