پشاور( نمائندہ خصوصی) خیبرپختونخوا کابینہ کا پہلا باضابطہ اجلاس وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈا پور کی زیر صدارت جمعہ کے روزسول سیکرٹریٹ پشاور میں منعقد ہوا۔ جس میں کابینہ اراکین کے علاوہ چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹریز اور متعلقہ انتظامی سیکرٹریز نے شرکت کی ۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کابینہ اراکین کو خوش آمدید کہا اور واضح کیا کہ تجربہ کاراور نئے ممبران پر مشتمل ایک اچھی کابینہ تشکیل دی گئی ہے ۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ مشکل حالات میں ہمیں بھاری ذمہ داری ملی ہے ،ہم نے ایک ٹیم کے طور پر کام کرنا ہے ۔ ہمارے تمام کام اور فیصلے میرٹ کی بنیاد پر ہوں گے، صوبے کی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود ہماری ترجیح ہو گی اور اس مقصد کیلئے سب کو کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور عوامی توقعات کے مطابق ڈیلیور کرنا ہوگا۔ کابینہ اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کا قیام اور عوام کو ریلیف کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیحات ہوں گی ۔ جب سے پی ٹی آئی کی حکومت کو سازش کے تحت ختم کیا گیا تب سے ملک کے معاشی حالات دن بدن خراب ہو تے چلے گئے ،اس وقت ملک اور صوبے کو مشکل مالی حالات کا سامنا ہے اور حالات برے چل رہے ہیں ، ایسی صورتحال میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف کی فراہمی ترجیح ہو گی۔وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ چونکہ بہت سے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جارہے ہیں اور بیروزگاری بہت زیادہ ہو چکی ہے، اسلئے حکومت نے عوام کو فوری ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں اولین اقدام کے طور پر یکم رمضان سے صحت کارڈ کے تحت صوبے کی سو فیصد آبادی کو مفت علاج کی سہولت بحال کردیا گیا۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ فوری نوعیت کے دوسرے اہم ریلیف اقدام کے طور پر رمضان کے دوران عوام کو سہولت دینے کیلئے احساس پروگرام اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دستیاب ڈیٹا کے مطابق ساڑھے آٹھ ارب کی لاگت سے ساڑھے آٹھ لاکھ خاندانوں کو 10 ہزار روپے فی خاندان کیش کی صورت میں دیئے جائیں گے ۔ اس کے علاوہ تقریبا ایک لاکھ پندرہ ہزار ایسے مستحق خاندان جو مذکورہ ڈیٹا لسٹ میں شامل نہیں ہیں ،اُن کو بھی فی خاندان 10 ہزار روپے دیئے جائیں گے ۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دوران شروع کئے گئے لنگر خانے جو بعد میں بند ہو چکے تھے ،اُن کو بھی دوبارہ سے فعال بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ یہ حکومت کا غریب عوام پر احسان نہیں بلکہ اُن کا حق ہے جو ہمیں اپنی ذمہ داری اور فرض سمجھ کر لوگوں تک پہنچانا ہے ۔ علاوہ ازیں رمضان کے دوران صوبے کے ڈسٹرکٹ اور تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میں دستر خوانوں کا انتظام بھی کیا جائے گاتاکہ لوگ با آسانی سحری اور افطاری کی سہولت سے مستفید ہو سکیں ۔ علی امین نے مزید کہاکہ لوگوں کو باعزت روزگار کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات بھی صوبائی حکومت کی ترجیحات کا حصہ ہوں گے ۔ اس مقصد کیلئے نوجوانوں کی فنی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور کاروبار شروع کرنے کیلئے بلاسود قرضے دیئے جائیں گے ۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ وہ وسائل غیر ضروری اخراجات میں صرف کرنے کی بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے ۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہاکہ صوبے کے بہت سے حقوق ہیں، جو اسے نہیں مل رہے، اسلئے ہم وفاق سے وابستہ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے بھر پور آواز اُٹھائیں گے ۔ اُنہوں نے اُمید ظاہر کی کہ میڈیا بھی اس سلسلے میں ہماری آواز پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مجموعی طور پر اے جی این قاضی فارمولہ کے تحت صرف پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں صوبائی حکومت کے 1510 ارب روپے وفاق کے ذمہ واجب الادا ہیں ، یہ ایک بہت بڑی رقم ہے جو صوبے کے عوام کا تسلیم شدہ حق ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہاکہ پاکستان ہمارا ملک ہے،ہم اس کے معاشی حالات سے واقف ہیں ۔اگرموجودہ معاشی حالات کی وجہ سے یہ پیسے ہمیں یکمشت نہیں بھی مل سکتے مگر قسطوں کی صورت میں یا کسی دیگر طریقے سے ہی سہی ملنے ضرور چاہئیں ۔ وزیراعلیٰ نے بارشوں اور برفباری سے متاثرہ خاندانوںکے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ وہ اس سلسلے میں پہلے ہی مالی امداد دے چکے ہیں ۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بھی ہمارے صوبے میں آئے اور متاثرین کیلئے پیکج کا اعلان کیا، یہ ایک اچھی بات ہے تاہم وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اگر وفاق صوبے کے پیسے دیتا رہتا تو ہم یہی پیسہ عوام کی فلاح پر خرچ کرتے ، روزگار کے مواقع فراہم کرتے اور لوگوں کو غربت سے باہر نکالتے اور انہیں قدرتی آفات کے نقصانات سے محفوظ بناتے۔ وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ وہ اپنا حق عاجز ی سے مانگ رہے ہیں اگر یہ حق نہیں دیا جا تا اور اس میں تاخیری حربے استعمال کئے جاتے ہیں تو پھر ہم اپنے حقوق کے حصول کیلئے دیگر آئینی اور قانونی آپشنز اختیار کرنے پر مجبور ہوں گے ۔وزیراعلیٰ نے اس موقع پر عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ کرپشن کی حوصلہ شکنی کیلئے حکومتی اقدامات کا ساتھ دیں۔ اگر کوئی عوام سے رشوت مانگتا ہے تو نہ دے کیونکہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔ اگر ہم مل کر اس ظلم اور کرپشن کے خلاف کھڑے نہیں ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ اور اپنی آنے نسلوں کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں ۔ عوام رشوت طلب کرنے والے کے خلاف بھر پور آواز اُٹھائیں ، ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔علی امین کا کہنا تھا کہ اگر عوام بھی اس مقصد کیلئے اُن کی ٹیم کا حصہ بن جائے اور حکومت کا ساتھ دے تو اس لعنت سے نجا ت حاصل کی جا سکتی ہے ۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہاکہ عوام اپنے علاقوں میں اپنے اردگرد ترقیاتی کاموں پر بھی نظر رکھیں اور اگر معیار کے حوالے سے کوئی مسئلہ نظر آتا ہے ، اُس کو موقع پر ہی روک دیں، حکومت آپ کا ساتھ دے گی ۔ ہم سب نے مل کر اس صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے ۔ وزیراعلیٰ نے اس موقع پر کہاکہ ہم ایک غریب ملک ہیں ، بادشاہی نظام کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ اسلئے موجودہ صوبائی کابینہ نے پہلے اجلاس میں ہی سابق وزرائے اعلیٰ کے پاس موجود سرکاری مراعات کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ عوام نے ہمیں پالنے کا ٹھیکہ نہیں اُٹھا رکھا بلکہ ہم اس کام کے ذمہ دار ہیں کہ ہم عوام کے بچوں کو محفوظ مستقبل دیں اور اُن کی فلاح کیلئے کام کریں۔ عوام کے ٹیکس کے پیسوں پر عیاشی کا یہ سلسلہ مزید نہیں چلے گا۔ وزیراعلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ وہ رمضان کے بعد وزیراعلیٰ آفس اور دیگر سرکاری محکموں میں دی جانے والی مفت مراعات پر بھی کٹ لگائیں گے ، اگر کوئی بادشاہانہ انداز میں رہنا چاہتا ہے تو اپنی جیب سے خرچ کر ے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔مگر موجودہ معاشی حالات میں عوام کے دیئے گئے ٹیکس کے پیسوں پر نہ خود عیاشی کریں گے اور نہ کسی کو کرنے دیں گے ۔ اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ عوام نے اُن کو مینڈیٹ دے کر اس کرسی پر بٹھایا ہے لہٰذا اُن کی اولین ذمہ داری ہے کہ عوام کے حقوق و مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو اس کرسی پر بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔ مرکزی حکومت میں موجود سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہمارا نظریاتی اور سیاسی اختلاف رہے گا، تاہم اب جیسے بھی وہ حکومت میں بیٹھ چکے ہیں تو ہم اپنا حق حاصل کرنے کیلئے اُن سے بات ضرور کریں گے ۔صوبے کے جائز حقوق اور وسائل کی فراہمی کا طریقہ کار طے کیا جا سکتا ہے مگر کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اپنا حق چھوڑ دیں گے ، ہم ہر حال میں اپنا حق لے کر رہیں گے ۔ ہم اپنے عوام کو ریلیف دینا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اُنہیں ہمارے ساتھ تعاون کرنا ہو گا۔ جب تک میں اس منصب پر بیٹھا ہوں اپنے صوبے اور عوام پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ ہم اپنی ترجیحات کے مطابق کام کریں گے اور اگر ہمیں ہمارا حق ملتا رہا تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ تین گھنٹے افطاری کے وقت اور تین گھنٹے سحری کے وقت صوبے میں حتیٰ کہ گاﺅں کی سطح پر بھی گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو گی اور اگر اس کی خلاف ورزی کہیں ہوتی ہے تو یہ پیسکو کی طرف سے کئے گئے وعدے کی خلاف ورزی ہوگی۔