کراچی ( اسٹاف رپورٹر) جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ دھاندلی کی پیداوار پارلیمنٹ سے منتخب حکمران قوم کے دلوں پر حکومت نہیں کر سکیں گے،سندھ اور بلوچستان اسمبلی پیسوں کے زور پر خریدی گئیں ہیں ،میری خواہش ہے محمود خان اچکزئی کو ووٹ دوں لیکن دوسری طرف پارٹی کا فیصلہ مقدم ہے، بھرپور عوامی تحریک کیجانب بڑھ رہے ہیں، وہ اتوار کو جامعہ انوار العلوم کورنگی کراچی میں جے یو آئی سندھ کی مجلس شوری ، تمام اضلاع وتحصیلوں کے ذمہ داران کے اجلاس سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے، اس موقع پر مرکزی جنرل سیکریٹری مولانا عبدالغفور حیدری ، صوبائی امیر مولانا سائیں عبد القیوم ہالیجوی، جنرل سیکرٹری علامہ راشد محمود سومرو، محمد اسلم غوری ، عبدالرزاق عابد لاکھو ، مولانا محمد غیاث ، مولانا سمیع الحق سواتی، مولانا سعودافضل ہالیجوی ، قاری محمد عثمان ، مولانا تاج محمد ناہیوں ، حاجی عبدالمالک ٹالپر ، مولانا عبداللہ مہر ، مولانا صالح اندھڑ سمیت دیگر نے خطاب کیا ۔ جبکہ سندھ بھر سے جے یو آئی کے امیدوران اور ضلعی و تحصیل عہدیدار لان بھی موجود تھے، صوبائی اجلاس میں جے یوآئی صوبہ سندھ کی مجلس شوریٰ، تمام اضلاع کی مجالس عاملہ کے ارکان، تحصیلوں اور پی ایسز کے امراء و نظماء عمومی ، اور سندھ بھر سے جے یو آئی کے انتخابی امیدوران شریک ہوئے، مولانا فضل الرحمٰن نے شرکاء اجلاس کو تازہ سیاسی صورتحال کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا اور ان کی رائے بھی طلب کی، علامہ راشد محمود سومرو نے سندھ کی مجموعی انتخابی نتائج اور دھاندلیوں کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی، مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ جہاں اپوزیشن کی نشستیں ہونگیں ہم وہیں بیٹھیں گے، جنہیں پتہ تھا میں ان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار بنوں گا انہوں نے تجوریوں کے منہ کھولے،سیاست دانوں کو اپنی کمٹمنٹ رکھنی چاہیے، پی ٹی آئی سے متعلق جو مؤقف تھا وہ اب بھی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا ماحول بنے کے اختلافات دور ہو سکیں۔الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ہی تقسیم کی ہے، کسی کو ایک جگہ اور کسی کو دوسری جگہ ایڈجسٹ کیا گیا،سیاستدان خود پہلے ٹھیک ہوں پیسوں اور آمرانہ قوتوں کا سہارا نہ لیں، ہمارا کسی سے ذاتی جھگڑا نہیں، ان حکمرانوں نے اقتدار کو طاقت سمجھ لیا، پیسے کی بنیاد پر سندھ اور بلوچستان اسمبلی خریدی گئی۔انہوں نے کہا کہ ابھی تک گرینڈ الائنس کی فضا نہیں ہے، ملاقاتیں جاری ہیں ،نوجوان نسل میں شدت آ رہی ہے کچھ لوگ اسمبلیوں سے مایوس ہیں، ایک طبقہ جمہوریت کو کفر سمجھتا ہے، ہمیشہ جبر کو جبر سمجھا جائے گا، پی پی اور ن لیگ کو 2018 والا مینڈیٹ ملا، پھر تب دھاندلی کیوں تھی اب کیوں نہیں، محمود خان اچکزئی نے فیصلے سے قبل ہمیں اعتماد میں نہیں لیا،پہلے آتے تو اچھا ہوتا، سب پارٹیوں والے آئے ہیں ملاقات کیلئے انہیں عزت اور احترام دیا ہے ‘ لیکن ہم اپنے موقف پر قائم ہیں،ہمارے پاس جو آیا ہے اس کا احترام کیا ہے، ہم پارلیمنٹ میں جائیں گے ، احتجاج کریں گے۔عوام کو جمہوریت اور اسمبلیوں سے مایوس کیا جارہا ہے،ڈاکہ ڈالنے والے کو مجرم سمجھتے ہیں لاکھ دفعہ وہ اسٹیبلشمنٹ ہو لاکھ دفعہ وہ فوج ہو ظلم ،جبر کو جبر کہتے رہینگے ،سب کو اپنے موقف سے آگاہ کردیا ہے،اب کوئی اصرار نہیں کریگا، پاکستان آزاد کی حیثیت ہمیں قبول ہے، کسی کی کالونی کی حیثیت سے ہمیں قبول نہیں ، 1973 میں آئین بنا مگر اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر آج تک عمل نہیں ہوا، پارلیمنٹ میں ہمارا کردار تحفظات اور احتجاج کے ساتھ ہوگا،ہم پورے ملک میں تحریک چلانے کا ایک لائحہ عمل بھی بنائیں گے بھرپور تحریک ہوگی عوامی قوت کے ساتھ ہوگی اور وہ ملک کی سیاست کو تبدیل کرے گی اس کا کایا پلٹے گی اس طرح نہیں رہیں گے جس طرح کے ہم پہ مسلط کیا جا رہے ہیں یہ حالات ہم نے تسلیم کرتے ہیں نہ اس کو ہم قبول کرتے ہیں اس کے خلاف بھرپور عوامی رد عمل آئے گا لیکن ہم اس کو منظم طریقے سے آگے بڑھانا چاہیں گے، جے یو آئی کے سربراہ نے مزید کہا کہ حماس کی قیادت سے ملوں گا تو بین الاقوامی طاقتیں تو ناراض ہوں گی، فلسطین میں تیس ہزار شہادتیں ہو چکی ہیں، ہزاروں بچوں کو بھی شہید کیا گیا جس میں شیر خوار بھی شامل ہیں،امریکا کو انسانی حقوق کی بات کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے، اسلامی دنیا کو کھل کر اپنے مسلمان بھائیوں کی حمایت کرنی چاہیے، مظلوم فلسطینیوں کو چھت تک میسر نہیں خوراک نہیں مل رہی، زخمیوں کو طبی سہولیات تک نہیں مل رہی افسوس کی بات ہے کہ ہم اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔