کراچی(نمائندہ خصوصی) گلوبل عافیہ موومنٹ کی رہنما اور ملک کی معروف نیورو فزیشن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ ہماری عدالتیں ہی ہمارے لیے امید کی کرن ہیں، ان کا کہنا تھا کہ تمام پاکستانی شہریوں کے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق کو برقرار رکھنا عدالتوں کا فرض ہے۔وہ کراچی پریس کلب میں عافیہ کیس کے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کے ہمراہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا خواتین کے حقوق کی گرمجوشی سے بات کرتی ہے لیکن جب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا نام لیا جاتا ہے تو اچانک خاموشی چھا جاتی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ڈاکٹر عافیہ کے بحیثیت انسان، بحیثیت عورت اور ایک ماں کے بنیادی حقوق کو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور وہ بھی انسانی حقوق کے علمبردار مغرب کی طرف سے۔ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ جو قومیں اپنی ماو¿ں اور بیٹیوں کی حفاظت کے معاملے پر خاموشی اختیار کرتی ہیں وہ دنیا میں عزت کے ساتھ نہیں رہ سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر آنے والی حکومت اور سیاستدانوں نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے پر قوم کو مایوس کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیںہمارے کمزور اور پست ہمت سیاستدانوں سے امید نہیں ہے کہ وہ عافیہ کے لیے کچھ کریں گے مگر وہ عدالتوں کے کردار کے بارے میں پراعتماد تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم کی غیر متزلزل حمایت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں سول سوسائٹی کے کارکنان ان کی طاقت کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ انہوں نے عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو سٹافورڈ سمتھ کی تعریف کی جو امریکہ، پاکستان اور افغانستان میں اس کیس پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ اور ان کی ٹیم عافیہ کے کیس پر افغانستان اور پاکستان دونوںممالک میں بھرپور کوششیں کر رہی ہے مگر افسوس حکومت کی طرف سے مطلوبہ مدد نہیں مل رہی۔ ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ اگرچہ وزارت خارجہ کے ساتھ ہمارے معاملات ذاتی طور پر تو خوشگوار ہیں مگر وہ صرف عافیہ پر کام نہیں کر رہے ہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ ضروری اسے FMC کارسویل سے دوسری محفوظ جیل میں منتقل کرنا ہے جہاں عافیہ نے بار بار جنسی حملوں کا سامنا کیا ہے۔ اور اتنا ہی ضروری ہے کہ کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کو جو کہ امریکہ میں اکیلے ہی کیس لڑ رہا ہے، کو پاکستانی نژاد امریکی وکیل فراہم کرے جوعافیہ کے قانونی حقوق کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کر سکے، بشمول ایک ڈاکٹر اور ایک امام کو (بیورو آف پریژن کا بظاہر کہنا ہے کہ وہ فراہم نہیں کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ کسی بھی سرکاری حکام جسے ڈاکٹر عافیہ کو وطن واپس لانے کی تجاویز سے کوئی مسئلہ ہے تو اس کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ سے رابطہ کرے اور اس کی وجہ بتائے، اور اس کا کوئی متبادل تلاش کرنے میں ہماری مدد کرے۔انہوں نے کہا کہ کام جاری ہے اور کلائیو اسٹافورڈ سمتھ نیویارک کی عدالت میں فیصلہ چیلنج کرنے سے پہلے افغانستان کا کم از کم ایک اور تفتیشی دورہ کرے گا۔اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کلائیو اسمتھ نے عافیہ صدیقی کے کیس پر روشنی ڈالی۔انہوں نے کہا کہ حکومتوں کی جانب سے تعاون ضروری ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ مطلوبہ ا ہداف ابھی تک حاصل نہیں ہو سکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میڈیا سے میٹنگ کا مقصد دو چیزوں کی جانب توجہ دلانا ہے یعنی ایک افغانستان میں جاری تحقیقات اور دوسرا مسئلہ کے حل کے لیے پاکستان سے مزید کام جاری رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دس دنوں کے دوران وہ معظم بیگ کے ہمراہ افغانستان میں کئی لوگوں کی مدد کے ساتھ دن رات کام کر رہے ہیں تاکہ امریکی حراست میں ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے تشدد اور ان کی بے گناہی کے مزید شواہد تلاش کیے جا سکیں۔کلائیو اسمتھ نے کہا کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، ہم مئی میں واپس آئیں گے۔ اب ہم یہ انکشاف کر سکتے ہیں کہ متعدد گواہوں سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو 2003 سے 2008 تک جب وہ لاپتہ تھیں بیشتر عرصہ بگرام، افغانستان میں رکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس وقت (افغانستان میں) آزاد تھی وہ سچ نہیں کہہ رہے ہیں۔17 جولائی 2008 کو اسے اس وعدے کے ساتھ غزنی بھیجا گیا کہ اسے اس کی بیٹی مریم واپس کردی جائے گی۔ اب ہم ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ ایک دھوکہ تھاجبکہ پولیس کو کال کی گئی تھی کہ وہ خودکش بمبار تھی۔ صرف ایک چیز جس نے اس کی جان بچائی وہ غزنی کا ایک بہادر درزی تھا جو خالد بن ولید مسجد کے پاس کام کرتا تھا اور وہ اردو زبان بھی بول سکتا تھا۔جب 40 افغان نیشنل پولیسAK47 کے ساتھ آئی تو اس درزی نے عافیہ اور افغان پولیس کے درمیان کھڑے ہو کراس کی جان بچائی اور انہیں بتایا کہ ٹیلی فون کرنے والا جھوٹ بول رہا ہے۔ ہم نے اس درزی کی گواہی کی تصدیق کے لیے کئی گواہ تلاش کر لیے ہیں۔ ہم نے اس بات کا ثبوت حاصل کر لیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کے امریکی عدالتی ٹرائل میں پیش کیے گئے شواہد شروع سے آخر تک جھوٹے تھے۔کلائیو اسمتھ نے کہا کہ پاکستان کو بھی سمجھداری کے ساتھ ایک تبادلہ پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے جو کہ امریکہ کے ساتھ کیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کو تبادلے میں دینے کا مشورہ دیا ہے اور اگر حکومت اس پر راضی نہیں ہے (جس کی کوئی وجوہات بتائی نہیں گئی ہیں) تو حکومت کو کچھ اور تجویز کرنے کی ضرورت ہے۔کلائیو اسمتھ نے کہا کہ تاہم، 2024 کے اختتام سے پہلے عافیہ کی وطن واپسی کو یقینی بنانا میرا ہدف ہے۔پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے چیئرمین الطاف شکور نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے معاملہ نے انسانی حقوق کے حوالے سے مغرب کے دوہرے معیار کو بے نقاب کیاہے۔ اسی طرح غزہ کی نسل کشی بھی انسانی حقوق پر مغرب کی جھوٹ اور مکروفریب کی ایک اور مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا مغرب اور اپنے مفادات کو بچانے والے عالمی اداروں سے غیر مطمئن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چند ”سیاسی طور پر بدمعاش ریاستوں“ کا ویٹو پاورجدید دنیا کے چہرے پر بدنما دھبہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کو ختم کیا جائے اور جمہوریت و انصاف کی بنیاد پر ایک نیا عالمی اتحادتشکیل دیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مزید وقت ضائع کیے بغیر امریکی جیل سے رہا کیا جائے جو امن اور انصاف کے لیے خوش آئند ہو گا۔