لاہور( نمائندہ خصوصی )پاکستان تحریک انصاف کا خاتمہ ۔عمران خان کی پارٹی تحریک انصاف کے ممبران پنجاب اسمبلی نے نئی جماعت سنی اتحاد کونسل کے نام پر نا صرف حلف اٹھا لیا ہے بلکہ انکے نمائندوں نے موجودہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے وزیر اعلی پنجاب،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات میں بھی حصہ لیا اب یہ کے پی کے میں بھی حکومت بنائیں گے اور قومی اسمبلی کا حلف اٹھا کر دوسرے نمبر کی اکثریتی جماعت بنیں گے جبکہ تعداد کے لحاظ سے ن لیگ اسوقت مرکز میں سب سے بڑی جماعت بنِ کر سامنے آئی ہے، مقبولیت کے باوجود تواتر کے ساتھ سیاسی ناکامی، ہے وقت کہ سیاسی شعور و حکمت عملی سے عاری فیصلوں نے نا صرف انکی جماعت کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ وہ اقتدار سے بھی محروم ہوتے چلے گئے جسکی واپسی فی الحال تو دور دور تک نظر نہیں آتی نتیجتاً وقت کے ساتھ ساتھ انکا ووٹر مزید مایوس ہوتا جاۓ گا تواتر کے ساتھ پی ٹی آئی کے غلط فیصلوں میں 2014 میں قومی اسمبلی سے استعفے اور انکا واپس لینا،2022 میں پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کامیاب عدم اعتماد کے نتیجے میں قومی اسمبلی سے مستعفی ہوکر اسوقت کی پی ڈی ایم حکومت کی رکاوٹوں کو دور کرنا مگر اُسکے چند دنوں کے بعد ہی عدالتوں میں استعفے واپس لینے کے لئے درخواست دائر کرنا پھر ناکامی کا سامنا کرنا نیز اپنے غلط فیصلوں کو تواتر کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے اپنی ہی پنجاب حکومت کی اسمبلی کو توڑنا مزید غلطی اُسکے بعد کے پی کے میں اپنی ہی حکومت کو جو اسوقت دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں تھی کو توڑنا نتیجتاً ان دونوں صوبائی حکومتوں سے محروم ہوکر اپنے ہی مخالفین کی عبوری حکومت بنانے کی راہ ہموار کرنا جبکہ 2024 کے انتخابات کے بعد فی الحال وہ اسمبلیوں میں حلف اٹھا رہے ہیں انتظار اس بات کا ہے کہ کیا یہ پھر ماضی کی غلط روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر مزید اپنا نقصان کرنے کے متحمل ہو سکیں گے؟ جسکی اب مزید گنجائش باقی نہیں رہی ہے یہ تو عمران ٹولے کی غلط سیاسی فیصلوں کی چند تفصیلات تھیں، اسکے علاوہ بہت سے ایسے واقعات ہیں جنکی وجہ سے تحریک انصاف کو مزید نقصان ہوا جسمیں اپنے ہی کیے گئے ائ ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کرنا، ائ ایم ایف کو خط لکھ کر ریاست پاکستان کو قرضہ نا دینے کی درخواست کرنا برعکس اسکے پی ٹی آئی کی حکومت کے دور میں اسی ائ ایم ایف سے تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ بھی لینا، جنرل عاصم منیر کہ ارمی چیف بننے کی مخالفت کرنا انکے خلاف جلوس نکالنا، 9مئی جیسے دہشت گردانہ واقعات،قاضی فائیز عیسی کے خلاف بے بنیاد ریفرنس دائر کرنا،ڈسکہ انتخابات کے بعد اپنے ہی نامزد کردہ الیکشن کمشنر سے محاذ آرائی کرنا الیکشن کمیشن کی توہین کرنا،نیشنل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سائفر پر جھوٹا بیانیہ بنانا،فوجِ کے کندھوں پر سوار ہو کر 2018 میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد تقریباً 44 ماہ تک اسی "ایسٹبلشمنٹ” کے ساتھ ایک صفحہ کی حکومت کرنا مگر انکے نیوٹرل ہوتے ہی انکو جانورکہنا میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کے القابات کو نوازنا مگر پھر اسی غدار ارمی چیف باجوہ کی مدت ملازمت میں مزید توسیع کی پیشکشیں بھی کرنا شامل ہے