کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)بلدیہ عظمی کراچی میں بغیر اشتہار کے نہ درخواستیں،نہ ٹسٹ،نہ انٹرویو جبکہ الیکشن کمیشن کی پابندیوں کے باوجود 6 سال پرانی تاریخ پر 74 غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف ہونے پر ہلچل مچ گئی ہے۔مڈید دو سو بھرتی کا پلان تھا جو وقت سے پہلے کھل گیا جس سے مسٹر کلین ہونے کے دعویدار مرتضی وہاب کا چہرہ بھی داغدار ہو گیا۔ ان ملازمین پر چھ سال کے واجبات کے ساتھ 30 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ ان ملازمین کوسابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں کنٹریکٹ پر بھرتی اور ریگوائرز ہونے والے ساڑھے آٹھ سو ملازمین کی فہرست میں موجودہ میئر کراچی اور ان کے فرنٹ مینوں نے خاموشی سے شامل کرنے کی تیاری کی ہے،اس بارے میں کروڑوں روپے کی بندر بانٹ کی تیاری کی جارہی ہے۔ان 74 ملازمین کے نام پر 20 تا 30 لاکھ روپے فی ملازم کے حساب سے لوٹ مار کی گئی ہے۔ چھ سال پرانے ریکارڈ میں عارضی ملازمت کو ریگوائرز کے ساتھ بینک اکاونٹس سمیت دیگر جعلی دستخطوں سے غیر قانونی کاروائی تیزی سے جاری ہے۔ ہر ملازم کو تنخواہ کا لالچ دے کر چھ سال کے واجبات ہڑپ کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے جس میں مبینہ طور پر میئر،ان کے فرنٹ مین کے ساتھ کے ایم سی کے فنانس کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ اس مد میں 30 کروڑ روپے سے زائد کی بندر بانٹ کی توقع ہے۔ اس ضمن میں میئر کراچی مرئضی وہاب کو بتایا گیا ہے کہ ان میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے رشتہ داروں کے نام شامل ہیں تاہم انہوں نے وقت سے پہلے راز کھلنے پر ان بھرتیوں کو روک دیا ہے اور مناسب وقت کا انتظار کرنے کو کہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی بعض اہم شخصیات کے ملوث ہونے کی وجہ سے تحقیقات کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ذرائع کے مطابق ڈپٹی میئر سلمان عبداللہ، سٹی کونسل گروپ لیڈر کرم اللہ وقاصی،مِیئر کراچی کے مشیر خاص سکندر بلوچ اور اس طرح کے پارٹی کے اہم عہدیداروں کے ملوث ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی انکوائری کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ان تمام گھناؤنے کاموں کے پیچھے مرکزی کردار طاہر جمیل دررانی ہیں جو ماضی میں بھی اس طرح کے کاموں کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ قبل ازیں میئر کراچی مرتضی وہاب نے ریٹائرڈ پروجیکٹ ڈائریکٹر رضوان خان کے خلاف بدعنوانی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے کے الزام میں تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ایک ہفتہ میں رپورٹ منظر عام پر لانے کا اعلان کے باوجود سات ماہ سے زائد عرصہ گذر جانے کے باوجود کسی کردار کے خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہ ہوسکی کیونکہ رضوان خان پیپلز پارٹی میں سرگرم عمل تھے اور پارٹی کے اہم عہدیداروں نے بھی چمک کی وجہ سے تحقیقات کو سرد خانے میں ڈلوا دیا ہے،اسی لیئے تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر لانے کے بجائے مکمل خاموشی اختیار کرلی گئی ہے ویسے بھی چمک کے آگے بڑوں بڑوں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔اب اسی چمک کی وجہ سے بلدیہ عظمی کراچی میں غیر قانونی ملازمت کے جھانسے اور فراڈ کے بہت بڑے اسیکنڈل پر پردہ ڈالنے، خاموشی اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے تاہم چہ میگوئیوں کی بازگشت تمام سرکل میں گونج رہی ہے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملازمت کے غیر قانونی کھیل میں ڈپٹی میئر کراچی سلمان مراد، پیپلزپارٹی کے سٹی کونسل میں گروپ لیڈر کرم اللہ وقاصی،مشیر خاص میئر کراچی سکندر بلوچ کے ساتھ بعض حاضر و ریٹائرڈ افسران بھی شامل ہیں جن میں بدعنوانی میں برطرف ہونے والے طاہر جمیل درانی مرکزی کردار ہے۔سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں ہونے والی ملازمت میں 1160کنٹریکٹ ملازمین کو ریگوائرز کیا گیا تھا۔اس کی فہرست نیب کراچی اور اینٹی کرپشن سمیت دیگر تحقیقاتی اداروں کو پیش کی جاجکی ہے۔اس فہرست میں بعض کو میئر کراچی کے قریبی رفقاء نے بھاری رقم وصول کرکے ان 74 ملازمین کو بھی فہرست میں شامل کیا ہے جس کے پکڑے جانے کی تصدیق حکام کررہے ہیں۔بعض افسران کا کہنا ہے کہ نئے فراڈ اور غیر قانونی کاموں میں سابق سینئر ڈائریکٹر ہیومن رسورسز سید تسنیم احمد کے جعلی دستخط سے کنٹریکٹ لیٹر اور ریگولرائز کیا گیا ہے۔بعض کو ریٹائرڈ ہونے والے سینئر ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد فاروق کے جعلی دستخطوں سے کنٹریکٹ اور ریگولرائز کی تصدیق بھی کی گئی ہے،جنہوں نے تحریری طور پر ہیومن ریسورسز ڈپارٹمنٹ کو اگاہ کردیا ہے کہ اگر میرے دستخطوں سے کوئی ملازمت دی جائے تو پہلے مجھ سے تصدیق کی جائے۔ سید تسنیم احمد نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دو خط تحریر کرچکے ہیں اب وہ غیر قانونی بھرتی کرنے والے کو بے نقاب کریں گے۔ اگر پھر ایسا کوئی عمل کیا گیا تو وہ قانونی راستہ اپنائیں گے۔سید تسنیم حسین اور ڈاکٹرمحمد فاروق کے دستخط سے سید نجم الحسن ڈائریکٹر پے رول میں تعیناتی کے دوران بعض ملازمین کی بھرتی اور اپ گریڈیشن کردی گئی تھی جو ایک بھیانک کھیل ہے۔ ساڑھے تین سو سے زائد ملازمین کے ریکارڈز میں تبدیلی کی گئی ہے جو نجم الحسن نے اپنے گریڈ 19 کی جعلی پرمویشن کو ایڈ کیا تھا۔وہ کے ڈی اے میں ڈائریکٹر لینڈ ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جعلی بھرتی اسیکنڈل میں ریگولرائز کے بعد اسٹینڈ گوڈ اور بینک اکاونٹ کھلونے کا حکمنامہ سابق سینئر ڈائریکٹر ہیومن ریسورسز الطاف ساجد کے دستخط سے جاری ہوئے ہیں۔بعض ملازمین کے اکاونٹ بھی کھولے گئے ہیں۔ بھرتی کے کھیل میں میئر کراچی مرتضی وہاب کے قریبی افراد کے ملوث ہونے کا بتایا جاتا ہے جن کی وجہ سے معاملات کو انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے۔ اس کے مرکزی کردار میں طاہر جمیل درانی شامل ہیں۔ وہ پہلے بھی بلدیہ عظمی کراچی کے براہ راست پے رول میں بھرتی کرنے میں ملوث رہے ہیں اور اب وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ 27 سال قبل سابق وزیر اعلی سندھ لیاقت جتوئی کے دور میں ایک دن میں بھرتی پر پابندی اٹھانے کے دوران ایم کیو ایم نے ساڑھے آٹھ ہزار افراد بھرتی کرائے تھے اور اب نئے بھرتی ہونے والوں کو پہلے سے سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں کنٹریکٹ پر بھرتی ہونے والے ساڑھے آٹھ سو ملازمین کو ریگوائرز ہونے والوں کی نئی فہرست شامل کیا گیا ہے۔