کراچی(خصوصی رپورٹ:آغاخالد)کراچی میں انتخابی معرکہ نے 35 سال اس شہر پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والے الطاف حسین کے غبارہ سے ہوا نکال دی جو 3 دہائوں سے ہزاروں میل دور لندن میں بیٹھ کر اس شہر بے امان میں زیرو زبر کے مالک رہے اور 2024 کی انتخابی مہم کے آخری عشرے میں اپنے امیدواروں کی فہرست کا اعلان کرکے ملک بھر میں تھرتھلی مچادی تھی مگر 8 فروری 2024 کی شب انہیں اندازہ ہوگیا کہ اب پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی گزرچکا اور شہر ہاتھ سے نکل چکا اس کا جذباتی ووٹرز پی ٹی آئی کو پیارا ہوچکا اب چند سرپھرے دیواروں پر چاکنگ کرکے اسے بس نعروں میں ہی زندہ رکھے ہوے ہیں ورنہ حقیقت میں تو شہر اس سے روٹھ چکا الطاف حسین کو یہ بات آج تک سمجھ نہیں آرہی کہ جو مہاجر لیاقت علی خان کے قتل، شہر میں کوٹہ سسٹم کے نام پر سرکاری ملازمتوں کے دروازے ان کی نئی نسل پر بند کرنے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان کا معاشی اور جسمانی قتل عام کرنے کے باوجود جذبہ حب الوطنی سے سرشار نظرآرہے ہیں اور فیصلہ سازوں کاہروار مسکراکر سہ جاتے ہیں وہ ان کے راء سے رابطے اور چند ٹکوں کے عوض بھارتی ایماء پر شہر میں 30 سال تک خونریزی جاری رکھنے کے گھنائونے منصوبوں کے انکشاف کے بعد بھی ان سے کیسے جڑے رہ سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بیلٹ بکسز کھلے تو الطاف حسین کا منہ چڑارہے تھے اور صرف چند جگہ ہی ان کے نامزد لوگ بمشکل دھری گنتی تک پہنچ سکے ورنہ اکثر مقامات پر ہزاروں ووٹس میں الطاف کے حامیوں کا ایک بھی ووٹ نہ نکلا دوسری طرف انتخابات کے ہوا میں معلق نتائج سیاسی جماعتوں میں مزید کشیدگی کا سبب بنیں گے اب مستقبل کی حکومتوں کی تشکیل اور استحکام کے مرکزی ستون آزاد امید وار ہوں گے قومیں جس طرح لیڈر شپ پر اعتماد کرتی اور اس کے لئے قربانیاں دیتی آئی ہیں اس کی مثال 8 فروری کو جگہ جگہ نظر آئیں جب وہیل چئر پر ضعف زدہ بوڑھے،لاغرنوجواں، نوبیاہتا جوڑے،ہاتھوں میں اپنے محبوب لیڈر کی تصاویر تھامے بچے پولنگ اسٹیشنوں کے گرد منڈلاتے نظر آئے کئی ایک اپنا ووٹ یاپولنگ اسٹیشن ڈھونڈتے میلوں پیدل چلتے دھول اور دھوپ میں بے حال پھررہے تھے اب ان کے شعور کا اصل امتحان شروع ہوگا کہ ذہنی اور جسمانی اذیت کے باوجود انہوں نے اپنے سچے جذبوں سے نتائج کے ایسے پہاڑ کردئے کہ ہیراپھیری کے باوجود اکثریت "آزادوں” نے جیت لی مگر ہمارے بدعنوان معاشرہ میں جیت کا سہراسجانے والے وفاء کی کوئی نئی تاریخ مرتب کریں گے یا اپنے اچھے دام لگواکر اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھوجائیں گے یہ ہماری اس نئی نسل کے لئے ایک سبق ہوگا جو ہر فیصلہ جذبات کے دھارے پر رکھ لیتے ہیں اگر وہ ایسے اہم فیصلے کرتے وقت شعور کی کسوٹی پر پرکھ لیں تو شاید اس ملک کی تقدیر بدل جائے جو گزشتہ دہائ سے گونہ گوں مسائل کاشکار ہے اور اس کی معیشت اب لب دم پہنچ چکی ہے کسی بھی معاشرہ میں نئی نسل ہی اسکامستقبل ہوتی ہے اب اس نسل کو ان آزاد اراکین پر نظر رکھناہوگی جن کی کامیابی سے اپنے سنہرے خواب جوڑ دیئے تھے انتخاب کے بعد شہبازوزرداری کی پہلی ملاقات کے نتائج حوصلہ افزا نہیں کیونکہ زرداری کسی بھی صورت بلاول کو وزیر اعظم بنانے کے اپنے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے انہوں شطرنج کی جو چال بچھائی تھی وہ ن لیگ کے لئے نہیں اپنے لاڈلے کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھانے کے لئے تھی اور اس کے لئے ن لیگ کو پنجاب میں کمزور کرنا تھا عمران خان کے اقتدار کے سنگھاسن پر سوارہوتے وقت یہ تو ہر سیاسی کارکن جانتاتھا کہ اسٹبلشمنٹ اور خان کے افئر کی عمر تھوڑی ہی ہے کیونکہ خان کے اکھڑ مزاج اور تکبرکے سامنے عسکریت کاصبر ہارجائے گا اور اس کے بعد اقتدار ن لیگ کی جھولی میں آن گرے گا تو ان کے لیے اصل کانٹا ہی شریفین تھے جبکہ اسٹبلشمنٹ کا ایک مضبوط دھڑا بھی ن لیگ سے عرصہ سے متنفر ہے اس لئے انہوں نے زرداری کے منصوبے کو دوام بخشا اور ن لیگ کو عارضی اقتدار دے کر شہباز شریف جیسے نااہل سیاستداں کے ذریعے مہنگائی کاوہ طوفاں برپاکیا جس نے پنجاب میں لیگ کی قبر کھود دی پھر رہی سہی کسر انتخابی مہم سے اسے دور رکھ کر پوری کردی حقائق چغلی کھارہے ہیں کہ بلاول کو وزیر اعظم بنانے کے لئے ہی ساری چنڈال چوکڑی سجائی گئی ہے اور اب جو جوتیوں میں دال بٹنے جارہی ہے اس تنازعہ کا براہ راست نشانہ ملکی معیشت بنے گی اگر "کہیں”صرف یہ سوچا جارہاہے کہ تخت اسلام آباد کے ن لیگ اور پپلزپارٹی دو ہی فریق ہیں تو یہ بھی بھول ہے ،ان سے زیادہ طاقت ور فریق آزردہ "آزاد” بھی ہیں جو بڑی کامیابی اور پشت پر ووٹرز کے دبائو سے شتر بے مہار ہوسکتے ہیں جنھیں سنبھالنا اتنا بھی آسان نہ ہوگا جبکہ زردار صاحب کی زندگی بھر کاجوا عین عالم شباب پر ان کے سامنے ہے اور "آزاد” ننگی حسینہ کے روپ میں انہیں دعوت گناہ پراکسارہے ہیں ایک تجربہ کار جواری جو خطرات کا کھلاڑی بھی مشہور ہے کیسے اس موقع شاندار کو گنوائے گا اور اگر نواز شریف نے طاقت وروں کی مدد سےحصول اقتدارکی منازل طے کربھی لیں تو زرداری صاحب "آزادوں” سے مل کر وہ اودھم مچائیں گے کہ پھر سوائے ناکام حکومت کی رسوائی کے ان کے پلے کچھ نہ آئے گا ڈوبتی معیشت کو سنبھالنے کایہ شاندار موقع تھا اگر "اکڑ بکڑ” کا کھیل کھیلنا ضروری ہی تھا تو پھر معلق اسمبلی لانے کی کیاضرورت تھی مستحکم حکومت بنتی تو پانچ سالوں میں گنوایا کافی سرمایہ واپس آجاتا "حضور” اگر رکاب ہاتھ میں رکھنے کا جنوں کچھ کم ہوتو سوچئے گا، اب زرداری صاحب کا کھیل شروع ہوا چاہتاہے اور دیکھنایہ ہے کہ کھلے آسماں تلے خان کے بکھرے موتی ایمان کے کس درجہ پر ہیں وہ زرداری کی چمک کو جھٹک کر کانٹوں کی راہداری کیوں چنیں گے اگر واقعی عہد وفاء کی کوئی نئی تاریخ رقم ہوتی ہے تو یہ معجزہ ہوگا اور پھرایسا سمجھنے میں عار نہ ہوگا کہ انقلاب کی پہلی سیڑھی پر پائوں پڑچکاہے یارو، بہر صورت جوبویا ہے وہ کاٹنا ہی پڑے گا عقل والوں کے لئے بلاول کی جارحانہ انتخابی مہم خاصے اشارے دے رہی تھی کہ اس کے پیچھے کوئی پہاڑ سی قوت ہے اس نوجواں نے بہترین انتخابی مہم چلائی یہاں تک کہ کراچی کے اردو بولنے والے مہاجروں کا اچھا خاصہ ووٹ بھی لے اڑا، ان کے ساتھ پی پی کی پہلی بھٹو حکومت کی جانب سے کوٹہ سسٹم کی زیادتی کے باوجود بلاول نے انہیں راغب کیا اور 300 یونٹ بجلی مفت دینے کے دعووں نے ملک بھرمیں عام ووٹرز کو بھی تیر پر مہرلگانے کی ترغیب دی جبکہ بابوجی روٹھے بچے کی طرح گدڑی کے لعل بنے سمٹے رہے کہ جیسے نکالا تھا ازالہ یہی ہے کہ ویسے ہی لائو بات تو ان کی مان لی گئی مگر رسوائی جو ان کے حصہ میں آئی اس نے ان کے آخری برسوں کی کمائی کو تارتار کردیا اگر وہ خود سفر نہ کرتے محترمہ مریم نواز کو ہی میدان سیاست کی تسخیر کی اجازت دیدیتے تو آج نتائج یکسر مختلف ہوتے ن لیگ کاووٹرز اس کی ڈیڑھ سالہ حکومت کی مہنگائی لائو پالیسی سے سخت خفاتھا وہ نکلا ہی نہیں جبکہ اس کے کارکن قیادت کی خاموش مہم سے مزید ناراض ہوگئے یہاں تک کہ کراچی میں ن لیگ کی کم از کم 2 قومی اور 3 صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں مگر ہمیشہ کی طرح انہیں نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ سارا ووٹرر پی ٹی آئی کو پیارا ہوچکا جو تھوڑا بہت رہ گیا تھا ان کی اس بار کسر پوری کردی اب ایوان زیریں کو زیر کرنے کی سہ فریقی جنگ کا آغاز ہوا چاہتاہے آئیے "ان” کی طرح ہم اور آپ بھی تماش بینی کا کردار نبھاتے ہیں-