کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن نے پابندی کے باوجود من پسند شخص کو 30 لاکھ روپے بھاری معاوضہ پر بھرتی کر لیا ہے جس میں نہ قانون، نہ قواعد و ضوابط کی پابندی کی گئی ہے۔اس کے ساتھ ادارہ کے سروسز اور کارپوریشن بورڈ کی اجازت کے برعکس فنانس ڈپارٹمنٹ میں مالیاتی مشیر کی تقرری سے ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ ساڑھے چار لاکھ ماہانہ کی تنخواہ پر فنانس اینڈ آڈٹ میں عبدالروف نامی شخص کی تقرری پر الیکشن کمیشن سے بھی اجازت طلب نہیں کی گئی جبکہ الیکشن کے وقت بغیر الیکشن کمیشن کی اجازت کے ہر قسم کی تقرری غیر قانونی عمل ہوتا ہے۔ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ہیومن رسورسز محمدثاقب کے خط نمبر KWSC/DMD/HRD&A/60بتاریخ 18دسمبر2023جاری کیا گیا ہے جس میں عبدالروف کو براہ راست تقرری کا آٖفر لیٹر جاری کرتے ہوئے، میڈیکل سرٹیفکٹ، پولیس ویریفیکشن،ڈومیسائل، پی آر سی اور تعلیم اسناد جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ حتمی معاہدہ اور شرائط دستاویزات دس دنوں میں جمع کرانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔خط کے مطابق عبدالروف کی تقرری 30جون 2024 تک چیف ایگز یکٹو آفیسر کی سفارش اور بورڈ کی منظوری سے تقرر نامہ مدت ملازمت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔عبدالروف کا کہنا ہے کہ انہیں نے جوائننگ کرلی ہے ان کی تقرری قواعد و ضوابط کے تحت ہوئی ہے،لیکن نئی تقرری سے فنانس ڈپارٹمنٹ کے افسران بھی لاعلم ہیں۔ اس پوسٹ کی درخواست نہ محکمے نے دی نہ ہی کوئی اشتہار کے ذریعہ اگاہ کیا گیا تھا۔ عام انتخابات کے اعلان کے بعد تمام محکموں میں نئی تقرریوں پر مکمل پابندی عائد ہے عدالتوں نے بھی سروسز قوانین کے برخلاف تقرری پر پابندی لگا رکھا ہے۔ ادارے میں والڈ بینک میں کئی بھرتی ہوئے وہ کراچی واٹر اینڈ سوریج امپلی ٹیشن پروجیکٹ میں کی گئی تھی اور ان میں بعض افسران کو کارپوریشن میں بھاری معاوضہ پر تعینات کیا گیا ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سوریج کارپویشن کا ایکٹ منظور ہونے کے باوجود من پسند افراد کو براہ راست نوازنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر محمد ثاقب کا کہنا ہے کہ عبدالروف کی تقرری اور سفارش میئر کراچی و کارپوریشن کے چیئرمین مرتضی وہاب نے کی ہے،جبکہ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا کام صرف حکم کی تعمیل ہے،لیکن یہ سروسز رولز کے برخلاف ہے۔ ادارے میں دیگر افسران موجود ہیں ان کو اس پوسٹ پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔اس تقرری کو اعلی عدلیہ میں چیلنج کر کے خلاف قانون قرار دلایا جا سکتا ہے،جبکہ یک میئر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عبدالروف کی تقرری سے کوئی نقصان نہیں ہے کسی کو روزگار مل گیا ہے البتہ ادارے کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ماضی میں ضرورت سے زیادہ بھرتی کر کے پی آئی اے اور اسٹیل ملز کا بیڑہ غرق کیا اب واٹر بورڈ کو بھی اس طرح کی ناجائز بھرتیوں سے پیپلز پارٹی ہی تباہ و برباد کرے گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کارپوریشن نے فنانس، آئی ٹی، ہیومین رسورسز کے ایگزیکٹو آفیسرز کے ساتھ سیکریٹری بورڈ کی بھرتی کا اشتہار میڈیا میں جاری ہوچکا ہے۔یہ تقرری ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹڑ ہیومن رسورسز محمد ثاقب اور ان کی ٹیم کرے گی جو صرف گریجویٹ ڈکری کے حامل ہیں۔ ایک گریڈ میں تقرری کے بعد جعلی سازی اور سیاسی بنیاد پر گریڈ 20 میں پہنچے ہیں۔ان کا بدعنوانی میں بھی ریکارڈ بھی موجود ہے۔نیب، اینٹی کرپشن اور دیگر تحقیقاتی اداروں میں ان کے کیسز موجود ہیں لیکن چمک کے آگے یہ تمام ادارے خاموش ہیں اور ان کی تحقیقات سرد خانے کی نظر ہو گئی ہے۔ثاقب کے بارے میں محکمہ کے کئی افسران کا کہنا ہے کہ وہ انگریزی میں ایک لیٹر لکھ نہیں سکتے لیکن انہوں نے کئی ریٹائرڈ اہلکار بھرتی کر رکھے ہیں جو ان کیلیئے انگریزی میں لیٹر لکھتے ہیں۔ایسا شخص کیسے اعلی تعلیم یافتہ، تجربہ کار افراد کی تقرری کریں گے یہ ایک المیہ سے کم نہیں ہو گا۔ یہ کارپوریشن کے سامنے سوالیہ نشان بھی ہے۔ اس سے قبل دو مرتبہ مشیر فرم کے ذریعہ درخواستیں طلب کی گئی تھیں وہ ناکام ہوئے اور خواہش مند افراد میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ایک ایسا ادارہ جہان بدعنوانی کا راج ہو وہاں ایماندار، صاف ستھرے کردار کے حامل شخص کو تلاش کیا جارہا ہے،جبکہ سروسز رولز کے تحت محکمہ میں تقرری کیلیئے پہلے اخبارات کے ذریعہ درخواستیں طلب کی جاتی ہیں،اس کے بعد محکمہ اپنی تجربہ کار ٹیم کو درخواست گزار کے کاغذات کی جانچ پڑتال کرنے اور اس عہدے کا معیار کی چھان بین کرکے میرٹ لسٹ مرتب کی جاتی ہے،اور درخواست گزاروں کا باقاعدہ تحریری ٹسٹ اور انٹرویو کے بعد سلیکٹ ہونے والے افراد کی تقرری کی جاتی ہے۔قبل ازیں کارپوریشن میں چیف سیکرٹری، افیسر، اور محکمہ قانون کو ٹھیکے پر تمام رولز کے برخلاف تعینات کیا گیا تھا اس پر کارپوریشن میں کوئی احتجاج یا اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا اور نہ کسی آڈٹ افیسرز نے کوئی اعتراض لگایا تھا۔ محکمہ میں غیر قانونی تقرری اور سرکاری فنڈز کے ناجائز استعمال کا سلسلہ جاری ہے۔کارپویشن کی مزدر یونین کا کہنا ہے کہ نیب یا دیگر تحقیقاتی اداروں کے ساتھ کارپوریشن کے بورڈ ارکان کو بھی غیر قانونی تقرری کا نوٹس لینا چاہیے کیونکہ اس تقرری نے ان کے کردار کو بھی چلنج کیا ہے اور اس عمل سے ان سب کا کردار مشکوک ہو گیا ہے۔واٹربورڈ آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر ندیم کرمانی انتظامیہ کے غیر قانونی کاموں میں خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں،اسی حوالے سے ان پر الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ اندرون خانہ انہوں نے بھی اپنے معاملات طے کر لیئے ہیں۔