کراچی (خصوصی رپورٹ: فہمیدہ یوسفی ):آپریشن گنجال فروری2فروری سال 2022 کو BLA مجید بریگیڈ کے دہشت گردوں نے پنجگور اور نوشکی کے 2 فوجی کیمپوں پر بیک وقت دھاوا بول دیا۔واضح رہے کہ بی ایل اے مجید بریگیڈ کا نام 2 مقتول بھائیوں کے نام پر رکھا گیا جن دونوں کا نام مجید تھا ۔ان دونوں حملوں کا آغاز بڑے خودکش حملوں سے ہوا جس کے بعد 5-6 دہشت گرد فوجی کیمپوں میں گھس آئے۔یہ دہشت گرد اچھی طرح سے تربیت یافتہ اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تھے جن میں نائٹ فائٹنگ کا سامان بھی شامل تھا۔جکہ یہ دہشتگرد نوشکی میں 48 گھنٹے اور پنجگور کیمپ میں 96 گھنٹے سے زائد لڑتے رہے جس سے ان کیمپوں میں سیکورٹی فورسز کو بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان پہنچا۔ان دونوں حملوں کو مقامی اور بھارتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے بڑے پیمانے پر سپورٹ کیا تاکہ ایک بہت بڑے دہشت گرد حملے کے واقعات کی دنیا کے سامنے خوفناک تصویر سامنے لائی جائےخاص طور پر بھارتی سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے اس واقعہ کو بڑھا چڑھا کر آگے بڑھایا۔اس سوشل میڈیا کمپین کا اثر یہ ہوا کہ پنجگور حملے کو گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2022 میں عالمی سطح پ2022 کے سب سے مہلک حملے کے طور پر شامل کیا گیا ۔یہ 2 حملے ابھی تازہ تھے کہ شریعت بلوچ (بلوچستان سے پہلا باقاعدہ خودکش بمبار- اس کی اصل کہانی بھی جلد آپ کے سامنے آئیگی) نے 28 اپریل 2022 کو کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کراچی کے سامنے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جس میں 3 چینی شہری ہلاک ہوئے۔
ان حملوں نے بی ایل اے مجید بریگیڈ کو دہشت گردی کی دنیا میں بڑا کھلاڑی بنا دیا۔تاہم، بی ایل اے مجید کی حالیہ سرگرمیوں نے تنظیم کے امیج کو بری طرح مجروح کیا ہے۔اگر یاد ہو تو خاتون سمایا قلندرانی ( جن کی حقیقی کہانی جلد منظر عام پر آئے گی) تربت میں سیکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کا قافلے پر خود کش حملے میں ملوث تھیذرائع کا دعویٰ ہے کہ سمایا خودکش حملے کا ارتکاب کرنے سے ہچکچا رہی تھی (جیسا کہ سی سی ٹی وی کیمرے سے جاری ہونے والی ویڈیو میں نظر آتی ہے) اور اس کی زندگی بے مقصد برباد ہو گئی۔آپریشن درہ بولاناب آتے ہیں آپریشن درہ بولان کی طرف، جہاں 30 سے زائد دہشت گرد مچھ اور کولپور میں سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنے میں ملوث تھے لیکن خوش قسمتی سے وہ مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کر سکے جو وہ چاہتے تھے، اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔یہ بات دلچسپ ہے کہ آپریشن در بولان کے دوران بی ایل اے مجید بریگیڈ نے 22 دہشت گردوں کو کھو دیا جب کہ انہوں نے صرف 13 کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔باقی نو دہشت گردوں کو اب بی ایل اے کی جانب سے بلوچستان سے لاپتہ افراد ہونے کا جھوٹا پروپیگنڈہ کیا جائے گا۔اگر ہم فروری 2022 کے آپریشن گنجال اور جنوری 2024 کے آپریشن درہ بولان کا موازنہ کریں تو ایسا لگتا ہے کہ یا تو بی ایل اے مجید بریگیڈ اپنی جان کھو چکی ہے یا پھر اپنے آپریشن کی حفاظت کو برقرار رکھنے میں ناکام ہے۔کسی بھی طرح سے تاثر پیدا کرنے میں ناکامی اور تنظیم کو ہونے والے متعدد نقصانات کے باوجود، ان کے مقامی حامیوں اور بھارتی اکاؤنٹس کے ذریعے سوشل میڈیا پر زبردست مہم چلانے کے باوجود، BLA-مجید نے اپنے ہینڈلرز کو مایوس کیا ہے۔سیکورٹی فورسز کی جانب سے کلیئرنس آپریشن کے دوران مچھ اور کولپور سے جس قسم کے ہتھیار اور آلات برآمد ہوئے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گرد طویل عرصے تک لڑنے کا ارادہ رکھتے تھے۔یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بی ایل اے مجید نے اگرچہ اپنی بھرتی اور نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے ذرائع کو وسیع کر لیا ہے لیکن تربیت، منصوبہ بندی اور مقامی مدد میں کوتاہیوں کی وجہ سے وہ اپنی طاقت کھو رہے ہیں