اسلام آباد (نمائندہ خصوصی اے پی پی):او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اڑتالیسویں اجلاس کا اعلامیہ جاری کر دیا گیاہے۔او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اڑتالیسویں اجلاس کے اختتام پر جاری ہونے والے "اسلام آباد اعلامیہ” کے اہم نکات میں "اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت” کے مرکزی موضوع کو شامل کیا گیا ہے۔اعلامیے کے مندرجات، او آئی سی کے چارٹر میں درج عظیم اسلامی اقدار اور نظریات سے ماخوز ہیں اور اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج اصولوں اور مقاصد سے مطابقت رکھتے ہیں۔اعلامیہ عالمی سیاسی، سلامتی، انسانی، اقتصادی اور تکنیکی مسائل کے بارے میں جائزے اور ان سے نمٹنے کے لیے وژن اور نظریات کی نمائندگی کرتا ہے۔ اعلامیہ او آئی سی رکن ممالک کے عزم کو واضح کرتا ہے جن میں مشترکہ مفادات کو فروغ دینا اور ان کا تحفظ کرنا؛ فلسطین، کشمیر اور دیگر،مشترکہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے منصفانہ مقاصد کی حمایت ،او آئی سی ممالک میں مسلم اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ ،مسلم دنیا کے اندر اور اس سے باہر کی سماجی، اقتصادی، سائنسی اور تکنیکی ترقی اور انضمام کے لیے مشترکہ وژن پر عمل کرنا، ہم آہنگی، رواداری، پرامن بقائے باہمی، زندگی کے بہتر معیار، انسانی وقار اور تمام لوگوں کے درمیان افہام و تفہیم کو فروغ دینا شامل ہے جو ہماری اجتماعی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ اعلامیے میں اس سال کے آخر یا اگلے سال تنازعات کو روکنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے طریقہ کار طے کرنے کے لیے وزارتی اجلاس بلانے کی تجویز دی گئی ہے۔یہ اعلامیہ افغانستان ہیومینیٹرین ٹرسٹ فنڈ کے فعال ہونے کا خیرمقدم کرتا ہے۔ واضح رہے کہ اے ایچ ٹی ایف کے چارٹر پر 21 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں دستخط کیے گئے تھے۔اس اعلامیے میں اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے متفقہ فیصلے کے مطابق 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے عالمی دن کے طور پر منانے اور خصوصی ایلچی مقرر کرنے کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا گیا ہے۔یہ اعلامیہ دہشت گردی کی تمام جہتوں اور زاویوں کو مسترد کرتا ہے اور اس برائی کو کسی بھی ملک، مذہب، قومیت، نسل یا تہذیب کے خلاف استعمال کرنے کی مذمت کرتا ہے۔ یہ حق خود ارادیت کے لیے لوگوں کی جائز جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوششوں کے خلاف او آئی سی کے مضبوط موقف کا اعادہ کرتا ہے۔اعلامیہ کووڈ 19 کے تباہ کن سماجی اور اقتصادی اثرات کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ہمارے نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔ اس میں یکساں طور پر ویکسین کی فراہمی ، قرض سے نجات، غیر قانونی مالیاتی بہائو کا مقابلہ کرنے اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے فنانسنگ کے وعدوں کی تکمیل کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی منتقلی اور صلاحیت پیدا کرنے کے سلسلے میں ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔اعلامیہ میں ترقی اور ڈیجیٹل تبدیلی کو تحریک دینے میں جدت اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے بڑھتے ہوئے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے روابط اور شراکت کو فروغ دینے کے مشترکہ عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔او آئی سی کے چارٹر اور تمام پچھلی سربراہی کانفرنسوں اور وزرائے خارجہ کی کونسلوں کے اعلامیوں میں موجود تمام وعدوں پر عملدرآمدکے اپنے عزم کا اعادہ اور اپنے لوگوں اور رکن ممالک کے درمیان اتحاد اور یکجہتی کے بندھن کو مزید مضبوط کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔امن، سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے مشترکہ عالمی وژن کی پیروی کا عزم، مساوات ، انصاف، خود مختاری، علاقائی سالمیت اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے عالمی اصولوں کی وفاداری ،اقوام متحدہ اور او آئی سی چارٹر کے اصولوں اور مقاصد کے لیے رکن ممالک کے عزم کا اعادہ کیا گیاہے اور اپنے مشترکہ مفادات کے تحفظ اور امت مسلمہ کو درپیش چیلنجوں سے اجتماعی طور پر نمٹنے کے لیے کوششوں کو مربوط کرنے پر اتفاق کیا گیا۔تمام لوگوں کے درمیان ہم آہنگی، رواداری، پرامن بقائے باہمی، بہتر معیار زندگی، انسانی وقار اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے کا عزم کیا گیا۔بین الاقوامی امن اور سلامتی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرات کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی حصوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی، عدم استحکام، طویل عرصے سے حل طلب تنازعات، اسلامو فوبیا، اسلام کے تشخص کو داغدار کرنے اور مسلم دنیا کو نقصان پہنچانے کی دانستہ کوششوں اور جغرافیائی سیاسی مسابقت، ہتھیاروں کی دوڑ، انسانی اور آب و ہوا کے بحرانوں، سماجی اور اقتصادی عدم مساوات اور عوام کے ساتھ ساتھ عالمی سیاسی، سلامتی اور اقتصادی نظام پر ان کے منفی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ یورپ سمیت دنیا بھر میں جاری مسلح تنازعات پر گہری تشویش کا اظہار اور دشمنیوں کے خاتمے، جانوں کے ضیاع کو روکنے، انسانی امداد کو بڑھانے اور سفارت کاری میں اضافے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔اعلامیہ میں امت مسلمہ اور انسانیت کی ترقی اور خوشحالی کے لیے امن، رواداری، اتحاد، ہم آہنگی اور انصاف کے ابدی اسلامی اصولوں کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ تمام شعبوں میں بین الاسلامی تعاون کو وسیع اور گہرا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا،اتحاد اور یکجہتی اور انسانی و مادی وسائل بڑھانے اور اسے لوگوں کی اجتماعی بھلائی کے لئے بروئے کار لانے پر اتفاق کیا گیا۔گزشتہ 50 سالوں میں اپنے مشترکہ مفادات کے تحفظ، رکن ممالک کے منصفانہ مقاصد کے دفاع، بالخصوص مسلم دنیا کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کوششوں کو مضبوط بنانے کے لیے او آئی سی کی کوششوں کو سراہا گیا۔ بین الاقوامی قوانین کے عالمی طور پر تسلیم شدہ اصولوں کی بنیاد پر سیاسی، سفارتی اور قانونی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے مذاکرات، ثالثی، مفاہمت اور دیگر پرامن طریقوں کے ذریعے تنازعات کے حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اس سلسلے میں پاکستان کی طرف سے 2022-23 کے دوران او آئی سی کی وزارتی کانفرنس بلانے کی تجویز کا خیرمقدم کیاگیا ۔ مسئلہ فلسطین اور القدس الشریف کی مرکزیت پر ایک بار پھر زور دیتے ہوئے اس کی اصولی اور فلسطینی عوام کو ان کے جائز حق خود ارادیت کے حق کے حصول کے لیے ہر سطح کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ اور اس سلسلے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی غرض سے کوششوں پر اتفاق کیا گیا۔القدس الشریف ریاست فلسطین کے مقبوضہ فلسطینی سرزمین کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ قابض اسرائیل کو اپنے استعماری طرز عمل سے روکے اور اسے تمام بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے پر مجبور کرے۔ اعلامیہ میں جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ غیر متزلزل یکجہتی کی تجدید کی گئی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور او آئی سی کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کی مکمل حمایت کا اظہار کیا گیا اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی۔اعلامیہ کے مطابق 5 اگست 2019 سے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کیا گیا جن کا مقصد مقبوضہ علاقے کی آبادیاتی ساخت کو تبدیل کرنا ہے۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کے تنازع کا حتمی حل جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہے۔ بھارت سے 5 اگست 2019 کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کو واپس لینے، مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں کے خلاف ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد کے لیے ٹھوس اور بامعنی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔بھارت کی جانب سے حال ہی میں پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی اور اس سے مسافر طیاروں کو لاحق خطرات اور بھارت کی طرف سے 9 مارچ 2022 کو سپرسونک میزائل کے لانچ سے جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ بھارت سے بین الاقوامی قوانین اور ذمہ دار ریاستی رویے کے اصولوں کی مکمل پاسداری کرنے اور حقائق تک رسائی کیلئے پاکستان کے ساتھ مشترکہ تحقیقات پر زور دیا گیا۔ جنوبی ایشیا میں استحکام کے لئے پاکستان کے اہم کردار کو تسلیم اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں پر مبنی علاقائی امن کے فروغ کے لیے اس کے کردار اور کوششوں کو سراہا گیا۔اعلامیہ میں مالی، افغانستان، صومالیہ، سوڈان، کوٹ ڈیوائر، کوموروس ، جبوتی، بوسنیا اور ہرزیگووینا اور جموں و کشمیر کے عوام اور ترک قبرص کے ساتھ یکجہتی کا اعادہ کیا گیا