کراچی (بیورو رپورٹ ) کراچی پریس کلب کے زیراہتمام سینئر صحافی اور محقق شاہ ولی اللہ جنیدی کی تیسری کتاب شکستہ تہذیب ۔ ناظم آباد ، نارتھ ناظم آباد کی تقریب رونمائی کا انعقاد کیا گیا ۔ تقریب کی صدارت معروف شاعر، ادیب اورمحقق خواجہ رضی حیدرنےکی جبکہ میئرکراچی مرتضیٰ وہاب تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ سیکرٹری پریس کلب شعیب خان نے نظامت کے فرائض ادا کیے ۔ صاحب کتاب شاہ ولی اللہ جنیدی نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد میں دو آبہ تہذیب کا مسکن تھا ۔ پڑھے لکھے ۔ ذہین اور نامورافراد یہاں رہائش پذیر تھے ۔ یہ دونوں علاقے ٹاون پلاننگ کے لحاظ سے بھی مثالی تھا ۔ مگر ستر سالوں میں ان دونوں علاقوں اور یہاں کے مکینوں نے معکوس ترقی کا سفر طے کیا ۔ ترقی یافتہ تہذیب اورشکستہ تہذیب میں بدل چکی ہے ۔ سینئر صحافی محمود ریاض نے بتایا کہ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد متمدن علاقے تھے ۔ برداشت انکساری اور شرافت یہاں کے لوگوں کا خاصہ تھا ۔ افسوس ہے کہ ہمیں آج اس تہذیب کو شکستہ کہنا پڑرہا ہے ۔۔ سینئر صحافی حسن عباس ۔۔ شہر کے بہترین علاقےاب تک مسائل کا شکار ہیں ۔ سڑکیں ۔ گلیاں ۔ لائبریریاں سب تباہ ہیں ۔ کھیلوں اور تعلیمی اداروں کے باہر کوڑے کے ڈھیرلگا دیئے گئے ہیں ۔ تیموریہ لائبریری جس نے طلبہ کو علم سے منور کرنا تھا وہ فلاحی تنظیم کو کس بنیاد پر دے دی گئی ۔ شاہ ولی اللہ جنیدی نے بہت اچھا کام کیا ۔ وہ مزید علاقوں پر بھی لکھیں کیوں کہ کراچی کی تاریخ کو کسی ایک کتاب میں سمویا نہیں جاسکتا ۔۔ سینئر صحافی محمد عمران احمد نے شاہ ولی اللہ جنیدی کے ساتھ اپنے خوش گوار یادوں کو تازہ کیا ۔ انہوں نے کہا یہ کتاب طلبہ اور نوجوان صحافیوں کے اثاثہ ہے ۔ اس معلومات افزا کتاب سے انہیں نہ صرف ناظم آباد اور ناظم آباد کا ماضی اور حال سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ انہیں تحقیق کا سلسلہ بھی سمجھ آئیگا ۔۔ بزرگ استاد اور جامعہ اردو کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق سربراہ ۔ پروفیسر توصیف احمد خان نے کہا ۔ کتاب انتہائی متوازن ہے ۔ اس میں دائیں اور بائیں بازو کو یکساں جگہ دی گئی ہے ۔۔ شاہ ولی اللہ جنیدی میرے شاگرد بھی ہیں ۔ اور ان کی یہ کتاب میرے لیے باعث فخرہے ۔ ان کی یہ کتاب عوام کی تاریخ پر مشتمل ہے ۔ اس دور جب کتاب چھاپنا انتہائی مشکل کام بن چکا ہے ۔ ان کی جانب سے ایسی تصنیف سامنے آنا ۔ قابل تعریف ہے ۔ سینئر صحافی مقصود یوسفی نے کہا ۔۔ آج زندگی کا ہر شعبہ انحطاط کا شکار ہے ۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا ۔۔ تقریب کے صدر خواجہ رضی حیدر نے کہا ۔۔ زندگی کے پچاس سال ناظم آباد مین گزارے ۔ یہاں کا الحسن کافی ہاؤس کھلا تھا ۔ جس کا افتتاح علامہ رشید ترابی نے کیا ۔ جہاں ملک کے معروف ادیبوں اور شعرا کی بیٹھک رہتی تھی ۔ انہوں نے تحقیق بہت محنت طلب کام ہے اور اس کے لیے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ انہوں نےتقریب میں شریک میئر کراچی کو مشورہ دیا ہے کہ کے ایم سی کو ایک شعبہ بنانا چاہیے ۔ جہاں کراچی پر تحقیقی کام کیا جاسکے ۔۔ تقریب کے مہمان خصوصی میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا ۔ ناظم آباد کی خصوصیت ہے کہ شہر کا کوئی نہ کوئی شخص کسی نہ کسی حوالے سے یہاں سے منسلک رہا ہے ۔ آج اس شہر کے جو حالات ہیں ہمیشہ سے ایسے نہیں تھے ۔ اس کے کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہم سب ہیں ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج قارئین نہیں رہے ۔ لوگ کتاب سے دور ہوگئے ہیں ۔ جو قوم قلم اور تمدن کے لیے جانی جاتی تھی اب ہمیں ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ اس موقع پر صاحب کتاب کی کاوش کو سراہتے ہوئے ۔ دست تعاون دراز کیا ۔ انہوں نے اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ اور کے ایم سی کے اخراجات سے شائع کرانے کا اعلان کیا ۔۔ سیکرٹری پریس کلب شعیب خان کا کہنا تھا کہ یہ کراچی پریس کلب ک لیے انتہائی فخر کی بات ہے کہ اس کلب کے رکن نے کراچی کی تاریخ پر اس قدر شاندار کام کیا ۔۔ انہوں نے بتایا کہ پریس کلب کتاب کلچر کو اجاگر کرنے کے تقریب کے انعقاد کا منصوبہ بنارہا ہے ۔ جس کے تحت کلب میں کتب میلہ لگایا جائیگا ۔ جس میں ہرخاص و عام شرکت کرسکے گا ۔ تقریب کے اختتام پر پریس کلب کی جانب سے سیکریٹری شعیب احمد، ممبر گورننگ باڈی شازیہ حسن اور نور محمد کلہوڑو نے مہمانوں کو اجرک پیش کی گئی ۔ جبکہ مصنف شاہ ولی اللہ جنیدی کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئی ۔ تقریب میں گلگت بلتستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نعیم خان، شاہ اسد اللہ جنیدی ۔ جاوید احمد جاگ سینئر صحافیوں فاضل جمیلی، مجاہد بریلوی، اشفاق الرحمان ، عابد حسین ، مشرف عارفی ، اصغرعمر ، عامر لطیف ،سلیم اللہ صدیقی ، سمیت دیگر نے بڑی تعداد میں شرکت کی ۔ شکستہ تہذیب ۔ ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد شاہ ولی اللہ کی تیسری کتاب ہے ۔ اس قبل انہوں نے نارتھ کراچی کے قیام ، شخصیات اور حالات پر ۔ ” نارتھ کراچی نصف صدی کا قصہ” کے نام سے 2015ء میں شائع کی ۔ ان کی دوسری کتاب یہ شارع عام نہیں ( کراچی کی یادگار سڑکیں) کے نام سے 2019ء میں شائع ہوئی ۔ اس کا انگریزی ترجمہKarachi,untold story of city street کے نام سے 2019 میں شائع ہوچکی ہے ۔