اسلام آباد( رپورٹ:اعظم خان بی بی سی اردو)
ایک زمانہ تھا کہ ملک ریاض کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں ان کے رہائیشی منصوبوں کی شہرت یہاں تک تھی کہ ان کی کامیابی کے چرچوں کے ساتھ ان کے انٹرویوز کبھی ٹی وی پر اور کبھی اخبارات کی زینت بنتے رہے۔اسلام آباد کے ایمبیسی روڈ پر واقع اپنی رہائشگاہ پر دھوتی کرتا میں ملبوس ملک ریاض نے چند برس قبل نجی ٹی وی چینل جیو کو ایک انٹرویو میں غربت سے نکل کر اپنے ارب پتی بننے کا پورا قصہ بھی سنایا۔نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’ایک دن جیو کے ساتھ‘ میں ان کی رہائش گاہ کے اندر کے خوبصورت مناظر دکھائے گئے، جہاں صحن میں قیمتی گاڑیاں نظر کو خیرہ کر دیتی ہیں۔ملک ریاض کے بعد کیمرے پر ان کے بیٹے احمد علی ریاض نمودار ہو کر کہتے ہیں کہ انھیں مہنگی گاڑیوں کا شوق ہے، ’خدا نے دیا ہے تو یہ مہنگی گاڑیوں کا شوق پورا کر رہے ہیں۔۔۔ جب غربت تھی تو اس طرف سوچتے بھی نہیں تھے۔‘اب ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض بیرون ملک مقیم ہیں۔ باپ بیٹا دونوں نیب کو 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں مطلوب ہیں۔ عدالت نے ان کی مسلسل عدم پیشی پر انھیں گرفتار کرنے اور ان کے ملک میں موجود اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض کے اثاثوں کی تفصیلات نیب نے عدالت کے سامنے پیش کی ہیں مگر یہ اثاثے ایک مختلف کہانی سنا رہے ہیں۔عدالت میں اثاثوں کی محدود تفصیلات فراہم کرنے پر آگے چل کر بحث کرتے ہیں پہلے زرا ایک نظر اس فہرست پر جو ملک ریاض اور علی ریاض نے عدالت میں اپنے اثاثوں سے متعلق جمع کرائی ہے، جنھیں ان کی نیب کے مقدمے میں مسلسل غیر حاضری میں بحق سرکار ضبط کیا گیا ہے۔اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے رواں ہفتے کو 190 ملین پاؤنڈ کیس میں ملک ریاض کو اشتہاری قرار دیا جبکہ پراپرٹی ٹائیکون اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض سمیت پانچ ملزمان کی جائیدادیں منجمد کر دی ہیں۔عدالت کو ملک ریاض کی نیب کے ذریعے اثاثوں کی جو دستاویزات موصول ہوئی ہیں اس میں انھیں بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ کا چیف ایگزیکٹو افسر ظاہر کیا گیا ہے مگر بحریہ ٹاؤن کو ان کی ملکیت میں کہیں ظاہر نہیں کیا گیا۔واضح رہے کہ نیب نے 190 ملین پاؤنڈ کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور دیگر سات ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔احتساب عدالت اسلام آباد میں دائر ریفرنس میں نیب حکام کے مطابق عمران خان کے علاوہ بشریٰ بی بی، فرح گوگی، زلفی بخاری، شہزاد اکبر، بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور ان کے بیٹے احمد علی ریاض بھی شامل ہیں۔ملک ریاض اور ان کے بیٹے کے نام پر اسلام آباد اور راولپنڈی میں چند پلاٹس (کیھوٹ) اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات عدالت کو دی گئی ہیں۔نیب کے ایک عہدیدار نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ملک ریاض اور ان کے بیٹے کے معلوم اثاثے ہیں یعنی ایسے اثاثے جو ان کے نام پر ہیں وہ ریونیو حکام نے نیب کو بھیجے اور نیب نے عدالت میں جمع کرا دیے۔نیب نے احتساب عدالت میں ملزمان کی ملکیتی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادوں کی تفصیلات جمع کرائی ہیں۔ان عدالتی دستاویزات کے مطابق ملک ریاض کے نام پر راولپنڈی میں موضع کوٹھا کلاں، موضع باملا کنیٹ اور اسلام آباد میں موہرہ نور کے مقام پر کچھ زمین موجود ہے۔اس کا صاف مطلب تو یہی ہوا کہ کاغذوں کی حد تک تو اب ملک ریاض اور ان کے بیٹے کے پاس نہ کوئی گاڑی ہے اور نہ ہی انھیں کوئی چھت میسر ہے۔اس بارے میں نیب میں اعلیٰ عہدے پر ذمہ داریاں ادا کرنے والے وکیل عمران الحق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کی جو تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کی گئی ہیں یہ پورے نظام انصاف کی وضاحت کردیتی ہیں۔
ان کے مطابق ملک میں یہ عام کلچر ہے کہ زیادہ پیسے والے لوگ اپنے نام اثاثے نہیں رکھتے اور ان کے ایسے اثاثے بے نامی کے ہوتے ہیں۔عمران الحق کے مطابق اس وقت ملک میں ’ٹرانفسر آف پراپرٹی ایکٹ‘ پر عملدرآمد نہیں ہو رہا اور نجی رہائشی سکیمیں اپنے رہائشیوں کے ساتھ ایگریمنٹ ٹو سیل اور پھر ’سیل ڈیڈ‘ کرنے کے بجائے صرف انھیں پلاٹ یا گھر خرینے کے بدلے ’الاٹمنٹ لیٹرز‘ جاری کرتی ہیں، جس کی وجہ سے قومی خزانہ ٹیکس سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔عمران الحق کے مطابق ملک ریاض نے ماضی میں سرکار کے ساتھ معاملات طے کرتے ہوئے منفرد انداز ہی اختیار کیے رکھا ہے۔
ان کے مطابق ملک ریاض نے نیب کے ساتھ جتنی بھی پلی بارگین کی ہیں ان میں انھوں نے نیب کو پیسہ کسی تیسرے شخص کے ذریعے ادا کیا اور اس پلی بارگین کا نام پیکج بارگین رکھا گیا، جو ایک ایسی اصطلاح تھی جس کا نیب کے اپنے قانون میں کوئی ذکر موجود نہیں۔ان کے مطابق اس پیکج بارگین میں یہ بات لکھی ہوتی تھی کہ فلاں ریفرنس میں اب نیب ملک ریاض اور شریک ملزمان کو گرفتار نہیں کرے گا اور فائل کا منھ ہمیشہ کے لیے بند رہے گا۔
واضح رہے کہ پیر کے روز احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے جہاں ملک ریاض اور ان کے بیٹے کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے وہیں انھوں نے سابق وزیراعظم کے معاونین زلفی بخاری اور شہزاد اکبر، فرحت شہزادی عرف فرح خان گوگی اور ایک وکیل ضیا المصطفیٰ نسیم کی جائیدادیں بھی منجمد کرنے کا بھی حکم دیا۔عدالت نے ملک بھر کے ریونیو افسران کو ملزمان کی غیر منقولہ جائیدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا جبکہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افسران کو ان کے ناموں پر رجسٹرڈ گاڑیاں ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا۔عدالت نے کمرشل بینکوں کو ہدایت کی کہ وہ ان کے کھاتوں کو منجمد کریں اور لین دین یا سرمایہ نکالنے کی اجازت نہ دیں۔ عدالت نے ان ملزمان کی ملکیتی جائیدادوں سے کرائے کی آمدنی حاصل کرنے کے لیے نیب کے ایک ایڈیشنل ڈائریکٹر کو بطور رسیور بھی مقرر کیا۔نیب کی جانب سے دائر اس ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ عدالت خود ایسی صورتحال میں کیسے اپنی کارروائی کو آگے بڑھاتی ہے اور کیا کسی بھی قسم کی مزید تحقیقات کا کہا جاتا ہے یا جو کسی نے دستاویزات پیش کر دیں ان پر آنکھیں بند کر کے ہی اعتبار کر لیا جاتا ہے؟
عمران الحق کا کہنا ہے کہ یہ کونسا کوئی پہلی بار ہوا ہے کہ جائیداد ضبطگی کا حکم دیا گیا ہو۔ ان کی رائے میں اس وقت ملک میں عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کروانا ایک بڑا چلینج ہے۔
ان کے مطابق سپریم کورٹ نے ملک ریاض اور ان کے رہائشی منصوبے بحریہ ٹاؤن سے متعلق متعدد فیصلے دیے مگر کئی برس گزرنے کے باوجود آج تک جنگلات کی زمینیں تک واپس نہیں لی جا سکی ہیں اور ملک ریاض تحقیقات کا حصہ بننے کے لیے ایک بار بھی نیب کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔ملک ریاض نے بی بی سی کی طرف سے رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کے پرسنل سیکریٹری ریٹائرڈ کرنل خلیل الرحمان نے بھی اس حوالے سے تبصرہ کرنے سے معذرت کی۔عمران الحق کے مطابق عدالت کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ معاملات کی چھان بین کرائے تاہم ان کے مطابق عدالت کو خود نیب جیسے ادارے بھی اصل صورتحال سے آگاہ نہیں کرتے اور گواہان بھی حقائق سے پردہ نہیں اٹھاتے اور پھر آخر میں ایسے بااثر ملزمان باآسانی بری ہوجاتے ہیں اور منجمد اثاثے پھر واپس انھی ہاتھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ملک ریاض کا برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کے ساتھ تصفیہ 2019 میں ہوا جس کی تفصیلات این سی اے کی پریس ریلیز سے حاصل ہوتی ہیں۔این سی اے نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی 190 ملین پاؤنڈز کی رقم ریاست پاکستان کی ملکیت ہے جسے پاکستان منتقل کر دیا جائے گا۔این سی اے نے تو اپنا وعدہ پورا کیا مگر یہ رقم پاکستان کے قومی خزانے میں پہنچنے کے بجائے سیدھی سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ تک پہنچی جس میں ملک ریاض بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کے ایک تصفیے کے ذریعے قسطوں میں ادائیگی کر رہے ہیں۔حالیہ دنوں میں ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے برطانیہ سے 190 ملین پاؤنڈز قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔