اسلام آباد( مانیٹرنگ ڈیسک؛ کورٹ رپورٹر )پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا فیصلہ درست قرار دے دیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی درخواست منظور کرلی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا۔چیف جسٹس پاکستان نے فیصلہ سنایا جس میں لکھا کہ الیکشن کمیشن کئی ماہ سے تحریک انصاف کو الیکشن کروانے کےلیے نوٹس جاری کر رہا تھا۔ آخر پی ٹی آئی نے الیکشن کروائے لیکن ان میں سقم پائے گئے، الیکشن کی جگہ مشتہر نہیں کی گئی، دیگر امیدواروں کو پارٹی الیکشن میں کھڑا ہونے کا موقع نہیں ملا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ اپنے ساتھ ججز سے بھی مشاورت کرنا ہوگی، دونوں جانب سے اچھے دلائل دیے گئے۔ دلائل جذب کرنے اور نتیجے تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔فیصلہ سنانے کیلئے ساڑھے 9 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا، تاہم اس میں تاخیر ہوئی۔ چیف جسٹس نے فیصلہ سنانے سے قبل فیصلہ سنانے میں ہونے والی تاخیر پر معذرت بھی کی۔ چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا نوٹس 2021 میں کیا۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک انتخابات کرانے کا وقت دیا۔انہوں نے فیصلہ میں کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست دائر کرتے ہوئے نہیں بتایا کہ ایسی ہی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے۔چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک معاملہ ایک ہائیکورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسرے ہائیکورٹ میں نہیں چیلنج ہوسکتا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا۔ عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13 جماعتوں کے انتخابی نشان لیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کروائے، پی ٹی آئی کے 14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائیکورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں۔ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی۔فیصلہ میں کہا گیا کہ ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کروائے۔ چیف جسٹس نے فیصلے میں کہا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کروانا ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹراپارٹی انتخابات کہاں کروا رہے ہیں؟ پشاور ہائیکورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا ان کے سامنے درخواست سے تجاوز تھا۔دریں اثناء
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ میں شامل تھے۔سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ مرکزی کیس میں علی ظفر وکیل تھے وہی اس کیس میں دلائل دیں گے۔جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو بھی دلائل دینا چاہے ہمیں مسئلہ نہیں۔چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے آپ نے پڑھا ہے۔جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے، پہلے علی ظفر دلائل دیں گے، میں آئینی معاملہ پر دلائل دوں گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کی معاونت کروں گا لیکن آج انتخابی نشان اور حتمی فہرستوں کے اجراء کی آخری تاریخ ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو ادراک ہے، عدالت پر ایک بوجھ فیصلہ لکھنے کا بھی ہے جو وکیل پر نہیں ہے، وکیل تو بس دلائل دے کر نکل جاتے ہیں ہمیں فیصلہ لکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔اس دورانوکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین اور الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزے کی اجازت نہیں دیتے، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا، آرٹیکل 17 دو کے تحت سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، سیاسی جماعت کو انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلّے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں جو فیئر ٹرائل دے سکے، پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، اگر انتخابات چیلنج بھی ہوتے تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعت یا افراد کے سول رائٹس کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل سے ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے سے متصادم ہے کیونکہ ایسا کوئی ٹرائل نہیں ہوا، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے جو پرائیویٹ شہریوں کی تنظیم ہے، الیکشن کمیشن کو ازخود طور پر شکایت کنندہ اور فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، میری پانچ قانونی معروضات ہیں جن پر دلائل دوں گا، پی ٹی آئی نے 8 جون 2022ء کو پہلا انتخاب کرایا، 23 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ غلط الیکشن ہیں، دوبارہ 20 دن میں کرائے جائیں، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اس وقت دیا جب سپریم کورٹ نے 8 فروری کی تاریخ کا فیصلہ دیا، ہم نے الیکشن کمیشن کے حکم پر عمل درآمد کے ساتھ اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا، ہم نے فارم 65 داخل کیا اور پھر 14 ارکان جنہوں نے کہا ہم مبینہ رکن ہیں، الیکشن کو چیلنج کر دیا، ان مبینہ پی ٹی آئی ارکان کی شکایت پر الیکشن کمیشن نے کارروائی کی، ان 14 شکایتوں پر کارروائی میں ہم نے زبانی طور پر نشان دہی کی کہ یہ پارٹی ارکان نہیں، سماعت کے اختتام پر الیکشن کمیشن نے ہمیں دو سوالات کے جوابات دینے کے لیے کہا، پارٹی نے ان سوالات کا تحریری جواب داخل کیا، کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے دیے، الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی مؤقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا، الیکشن کمیشن کا حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لیے انتخابات تسلیم کریں گے نہ ہی نشان دیں گے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے، پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، انتخابات جو بھی ہوں ہر کوئی ان سے خوش نہیں ہوتا، اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن ان کی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہو گی، صرف سوشل میڈیا یا میڈیا پر الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا کافی نہیں، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران شوکاز نوٹس کیے گئے، الیکشن ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا اس لیے ایکٹ پر کوئی بات نہیں کریں گے، کیا آپ کی حکومت میں الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ تھا جو اب کسی کے ماتحت ہو گیا؟پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈول کو فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو بھی ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالے گی؟ عدالت آئینی اداروں کو کنٹرول تو نہیں کر سکتی، آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے انٹرا پارٹی انتخابات پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں، وہ عمومی نوعیت کے ہیں، انتخابی نشان بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے ہمیں معلوم ہے، اگر ایوب کے دور کے بعد کی بات کریں تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ایک تاریخ ہے، پیپلز پارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان واپس لیا گیا، پھر پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز بنی، ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا، اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج کی اور تب کی صورتِ حال میں بہت فرق ہے، تب سپریم کورٹ کے ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا، آج تحریک انصاف کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں، آج کل ہر کوئی اسٹبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے، میں آئینی اداروں کی عزت کرتا ہوں۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے الیکشن کمیشن پر بدنیتی کا الزام واپس لے لیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر انتخابات باقاعدہ طریقے کار سے کرائے ہیں تو انتخابی نشان ہر صورت ملنا چاہیے، انتخابات کی پیچیدگیوں میں نہ جائیں، بس اتنا بتا دیں کہ کیا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات میں تمام پارٹی اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک کاغذ کا ٹکرا دکھا کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، یہ دیکھنا ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن مروجہ طریقے کار سے ہوئے یا نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نےجن بےضابطگیوں کی نشاندہی کی وہ پی ٹی آئی آئین سےہی کی ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابی شیڈول اور مقام پر کسی بےضابطگی کی نشاندہی نہیں کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارٹی میں الیکشن ہوا ہے یا نہیں، اکبر ایس بابر کو الیکشن لڑنے دیتے، سپورٹ نہ ہوتی تو ہار جاتے، پی ٹی آئی کے بانی جیل میں ٹرائل کا سامنا کر رہے ہیں، کل بانی پی ٹی آئی باہر آ کر کہہ دیں کہ کسے منتخب کر دیا، تو کیا ہو گا؟ پی ٹی آئی کو اپنے ساڑھے 8 لاکھ ممبران پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جن ضابطگیوں کی بنیاد پر نشان واپس لیا اس کی نشاندہی کر رہا ہوں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی نکتہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے اگر وہ ہی نہ ہوا تو باقی چیزیں خود ختم ہوجائیں گی۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈراما کرنا چاہتی ہے تو ادارے کمزور ہوں گے، ہمیں اپنے تمام اداروں کی ضرورت ہے جن کو مضبوط کرنا ہوگا، اگر پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن پر الزام لگاتی ہے تو ان کی حکومت میں کون تھا، کیا پی ٹی آئی نے خود چیف الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کیا؟ صرف سوشل میڈیا پر الزام تراشی سے ہمارے تمام اداروں کا نقصان ہوتا ہے، پی ٹی آئی اپنی حکومت والی اسٹیبلشمنٹ کا ذکر نہیں کرتی، اس وقت سب ٹھیک تھا، اب پی ٹی آئی کہتی ہے سب ادارے ان کے خلاف ہوگئے، پارلیمنٹ پر الزام لگانا آسان ہے، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن سب ہمارے ادارے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے، پارلیمنٹ کا قانون ہے کہ پارٹیاں اپنے اندر جمہوریت لائیں، آپ ایسے دلائل نہ دیجیے جو آپ کے مؤقف کے خلاف جائیں، آپ بتائیں کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ انتخابی نشان بنیادی حق ہے، یہ چیزیں قانون میں ملتی ہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ قانون کے تحت الیکشن کرانا ہے، اگر کوئی پارٹی الیکشن میں بےقاعدگی ہے تو رکن سول کورٹ جاسکتا ہے کمیشن کو اختیار نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی میں الیکشن کرائیں، پارٹی کے ان 14 ارکان کو الیکشن لڑنے کی اجازت کیوں نہیں دی؟پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے چیف جسٹس کے سوال پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان ارکان کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔بیرسٹر علی ظفر کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ جمہوریت چاہیے مگر گھر میں نہیں چاہیے، آپ کو سیاست چاہیے، جمہوریت نہیں چاہیے، یہ تشریح نہیں مل سکتی کہ 2 لاکھ دے کر آپ پارٹی میں الیکشن نہ کرائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جب پارٹی الیکشن ہو رہا تھا اس وقت پارٹی ہیڈ کون تھا۔وکیل علی ظفر نے بتایا کہ اس وقت سربراہ بانی پی ٹی آئی تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کے تحت اقدام کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں، ہم کیوں دیانت داری کے ساتھ فوج کا لفظ استعمال نہیں کرتے؟ مبینہ طور پر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آ رہی، آپ یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ فوج مداخلت کر رہی ہے، آپ کی درخواست پر 12دنوں میں انتخابات کی تاریخ دی گئی، آپ کی جماعت خوش تھی، سب خوش تھے، آج پاکستان میں عدالتوں تک رسائی حاصل ہے، ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی درخواست دائر نہیں کر سکتا، جب آپ حکومت میں تھے ہمیں وہاں بھی جانا ہو گا، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سے آئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ الزامات نہ لگائیں اگر وہ سچے ہیں، جب آپ حکومت میں تھے الیکشن کمیشن نے آپ کو نوٹس کیا تھا، ہمیں دیکھنا ہو گا اس وقت کیا بدنیتی کی گئی؟ ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے پوری ٹائم لائن دیکھنا ہو گی، اچانک الزام لگانا کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو کر کچھ کر رہی ہے ہم اس بات کو یقینی طور پر سنیں گے، اس اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت آپ کا یہ الزام نہیں ہوگا کہ یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں یا اپنے کیس کو قانون تک محدود رکھیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے 7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ کوئی پٹواری انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسے اختیار نہیں ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ پی ٹی آئی کے پہلے چیئرمین کون تھے؟پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی پہلے چیئرمین تھے۔
چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تسلیم کرلیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟ آپ کو سیاست چاہیے جمہوریت نہیں چاہیے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ تب ملے گا جب پارٹی آئین کے مطابق انتخابات ہوں گے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر ایسا حکم نہیں دے سکتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایسی بات ہے کہ پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ ہے، کھیلے نہیں مگر سرٹیفکیٹ مل گیا، پارٹیوں میں بڑے عہدوں پر بڑی سیاسی شخصیات ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے احترام میں ان بڑی سیاسی شخصیات کے خلاف کاغذات جمع نہ کرائے گئے ہوں، جو چھوٹے عہدے ہیں ان پر بھی بلامقابلہ امیدوار منتخب ہوئے، اس طرح پارٹی انتخاب کی ساکھ نظر نہیں آتی۔پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ فرض کریں کوئی بھی الیکشن لڑنے نہیں آیا تو کیا الیکشن کالعدم ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ سرکار 326 امیدواروں کو ان کے گھروں میں بند کر دے اور 326 امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرائے، قانونی طور پر تو الیکشن ہوگا لیکن میں تو اسے الیکشن نہیں مانوں گا، سوچ سمجھ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، پارٹیوں کے اندر بھی جمہوریت ہونی چاہیے، کاغذ کے ٹکڑوں پر نہیں چلتا ایک چیز ہے کہ کچھ ہوا یا نہیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 میں الیکشن کمیشن کو اختیار سماعت نہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ویب سائٹ پر تو اعلان نہیں کیا، مخصوص لوگوں کو کیسے پتہ کہ الیکشن ہے۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی الیکشن کے کاغذات نامزدگی ویب سائٹ پر بھی تھے اور صوبائی الیکشن کمیشن میں بھی تھے، پارٹی الیکشن ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی ویب سائٹ سے ہٹا دیے گئے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ تو پھر آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ نے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی، آپ کے آئین میں درج ہے کہ پارٹی چیئرمین کا الیکشن 2 سال بعد اور باقی عہدیداروں کا 3 سال بعد ہونا ہے، سب جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے عہدوں پر کون کون لوگ موجود ہوتے ہیں، شاید عزت میں یا کسی اور وجہ کے تحت ان عہدوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، چلیں ان بڑے عہدوں پر نہ سہی چھوٹے عہدوں پر تو الیکشن ہونے چاہئیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے انٹرا پارٹی الیکشن بلامقابلہ ہوئے ہیں، تو پھر آپ کے مطابق جو پشاور کے علاقے چمکنی میں اتنے لوگ اکٹھے تھے وہ کیوں آئے، کیا وہاں کسی نے بھی کسی ایک عہدیدار کے بلامقابلہ منتخب ہونے پر سوال نہیں اٹھایا؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہر جماعت کے پاس ایک بڑا لیڈر ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں اس لیڈر کی عزت کے تحت لوگ ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرتے، پی ٹی آئی کے پاس بانی پی ٹی آئی جیسی قیادت ہے جس کے فیصلے پر لوگوں نے اعتراض نہیں کیا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معذرت کے ساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے، میں اسے آمریت کہوں گا، کچھ عہدیداروں پر اعتراض نہ ہو سمجھ آتی ہے، مگر کسی پر اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے مقام پر کوئی نہیں آیا تو بھی الیکشن پر سوال نہیں ہو سکتا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نہیں میں ایسے الیکشن کو الیکشن نہیں کہوں گا، اب اگر 8 فروری کے انتخابات میں پارلمینٹ میں 326 لوگ بلامقابلہ آجائیں تو کیا وہ الیکشن ہوگا؟ لولی لنگڑی جمہوریت نہیں پوری جمہوریت ہونی چاہیے، بس اب بہت ہو گیا ہے، عقل و دانش بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے بیرسٹر علی ظفر سے سوال کیا کہ بیرسٹر گوہر یا آپ نے پی ٹی آئی کب جوائن کی؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں نے کچھ عرصہ قبل سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی، بیرسٹر گوہر پہلے پیپلز پارٹی میں تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تو ہم ایک ایسے پارٹی سربراہ کی بات پر یقین کریں جو 2 سال پہلے آیا، اکبر ایس بابر پر نہ کریں جو بانی رکن ہیں؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر کو 2018 میں پی ٹی آئی سے نکال دیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دکھائیں برطرفی کا لیٹر، کل سے یہی تو مانگ رہے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ اکبر ایس بابر پارٹی ممبر نہیں ہیں تو اس کے ثبوت دکھائیں۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ مجھے پارٹی کی ہدایات ہیں کہ اکبر ایس بابر سمیت دیگر درخواست گزار رکن نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہدایات کس نے دی ہیں؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی چیئرمین کی ہدایت ہے کہ درخواست گزار ممبر نہیں۔‘چیف جسٹس نے کہا کہ ہدایات وہ چیئرمین دے رہے ہیں جو 2 سال پہلے پارٹی میں آئے۔پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا، باقی امیدواروں کو سرکار اٹھا کر گھروں میں بند کر دے، اگر ایسے ہونے لگا یہ جمہوریت تو نہیں، اب ہم مکمل جمہوریت پر چلیں گے، سیاسی جماعتوں میں بھی جمہوریت آنی چاہیے، آپ کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی الیکشن لڑنے دیا جائے بس اتنی سی بات ہے، آپ کو ان کی شکل کیوں بری لگتی ہے اگر ایک آدھ سیٹ لے بھی گئے تو کیا ہو گا۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ اکبر ایس بابر بانی ارکان میں سے نہیں ہیں، یہ بھی پتہ چل گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پتہ کیا چل گیا ان کا قد کاٹھ آپ سے کہیں زیادہ ہے، علی ظفر آپ نے کب پارٹی جوائن کی۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں نے تو ابھی حال ہی میں پارٹی جوائن کی ہے، ڈیڑھ سال پہلے۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ علی ظفر اس سے پہلے آپ کس سیاسی جماعت میں تھے؟وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میں اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت میں نہیں تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جو انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی تھے تو مخصوص لوگوں کے پاس کیسے پہنچے’’چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ دکھادے بات ختم، پی ٹی آئی 2021 سے انٹرا پارٹی انتخابات سے کیوں گھبرا رہی ہے، الیکشن کمیشن کب سے پوچھ رہا ہے، انتخابات کرائیں مگر پی ٹی آئی تاخیر کرتی رہی، پی ٹی آئی تو کاغذات نامزدگی کی فیس کا بھی کوئی کاغذ نہیں دکھا رہی، ہم نے اس کیس کے جلد فیصلے کے لیے پی ٹی آئی وکلاء کو سنا، پی ٹی آئی وکلاء کو نہ سنتے تو پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کل ہی معطل کر دیتے، پی ٹی آئی وکلاء سوالات کا جواب نہیں دیں گے تو مجبوراً پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہو گا، صرف کہنے سے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو جاتی، آمریت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے، کسی بڑے کی ناجائز بات سنی جائے تو باہر سے جمہوریت اندر آمریت ہونے لگتی ہے، انگلینڈ میں اگر انٹرا پارٹی انتخابات کے بغیر وزیرِ اعظم تبدیل ہوتا تو کوئی نہ مانتا، انٹرا پارٹی انتخابات کے کاغذات نامزدگی دکھا دیں۔چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو ہدایت کی کہ پی ٹی آئی کی ویب سائٹ کھولیں شاید اس پر تفصیلات ہوں، سب کچھ چھوڑیں صرف یہ بتا دیں کہ الیکشن ہوا یا نہیں، پی ٹی آئی کی ویب سائٹ پر کوئی کاغذات نامزدگی نہیں ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد ویب سائٹ سے کاغذات نامزدگی ہٹا دیے گئے ہیں، کاغذات نامزدگی چاروں صوبائی دفاتر میں دستیاب تھے، تمام پارٹی ارکان کو معلوم تھا کہ فارم کہاں سے ملے گا اور جمع کہاں ہو گا، کاغذات جمع کرانے کے لیے تین دن کا وقت دیا گیا تھا، کاغذات نامزدگی کے ساتھ 50 ہزار روپے فیس بھی تھی۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 50 ہزار کس بینک میں گئے وہ دکھا دیں؟پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارٹی فیس کیش لی گئی تھی۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سیاسی جماعت کیش کیسے لے سکتی ہے؟ پیسے کہاں گئے؟ عدالت کی دلچسپی صرف جمہوریت میں ہے، تکنیکی نکات میں نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات میں ٹربیونل کا کردار ادا نہیں کر سکتا، پارلیمان نے انٹرا پارٹی انتخابات کا جائزہ لینے کا اختیار دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتی، اکبر ایس بابر انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے آئے تھےاور ان کو کاغذات جمع کرانے دیے گئے تھے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اکبر ایس بابر کے آنے کا ثبوت تو آپ نے جیو نیوز کی خبر کی صورت میں دیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر اکبر ایس بابر نے کاغذات جمع کرائے تو 50 ہزار فیس کہاں ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ تو اکبر ایس بابر سے پوچھیں کہ انہوں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ فیس کیوں جمع نہیں کرائی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے آپ نے اپنے آئین کی فلاں شق فلاں شق پر عمل نہیں کیا، علی ظفر آپ مخدوم علی خان کی وکٹ پر مت کھیلیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ مختلف صوبوں سے چار چار پینل تھے، میں اسپن بال نہیں لوں گا کہ وکٹ گنوا بیٹھوں۔چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا نیاز اللّٰہ نیازی پی ٹی آئی کے پرانے رکن ہیں؟جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ نیاز اللّٰہ نیازی نے 2009 میں پی ٹی آئی جوائن کی۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ لگتا ہے آپ دستاویزات میں کمزور ہیں، جو دستاویز مانگتے ہیں آپ کے پاس نہیں ہوتیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھیں سب نئے نئے لوگ آ رہے ہیں پرانے لوگ کہاں گئے، اچانک نئے نئے چہرے سامنے آنے سے ایلیٹ کیپچر کا تاثر مل رہا ہے۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی آئین کے مطابق کوئی اکیلا شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا، پینل بنانا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ جمہوریت کے خلاف نہیں ہے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہونا تو ایسے ہی چاہیے لیکن پارٹی آئین میں یہی لکھا ہے۔چیف جسٹس نے نیاز اللّٰہ نیازی کو بات کرنے سے روک دیا۔نیاز اللّٰہ نیازی نے کہا کہ آپ نے میرے بیٹے کے لائسنس انٹرویو میں بھی پی ٹی آئی کے سوالات پوچھے تھے، آپ میری تذلیل کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے علم ہی نہیں کہ نیاز اللّٰہ نیازی کا کوئی بیٹا بھی ہے، اگر ایسے کرنا ہے تو ہم اٹھ کر چلے جاتے ہیں، کیا ہم نیاز اللّٰہ نیازی کو نوٹس جاری کریں؟علی ظفر نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، میں اس کا الزام خود پر لیتا ہوں کہ کاغذات داخل نہ کر سکے۔چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ آپ کتنا وقت مزیدلیں گے؟وکیل علی ظفر نے کہا کہ ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ پشاور میں پارٹی کا کوئی آفس ہے؟جس پر علی ظفر نے کہا کہ جی چمکنی میں جہاں الیکشن ہوا، آفس کے ساتھ ہی گراؤنڈ ہے جہاں پر الیکشن ہوا، فیصلہ ہوا کہ اگر پولنگ ہوئی تو نشتر ہال میں، ورنہ پھر گراؤنڈ میں منعقد ہو گا، الیکشن پینل کے ذریعے ہوں گے، یہ واضح نہیں کہ ایک شخص لڑ سکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ چیئرمین پارٹی براہ راست خفیہ ووٹ سے منتخب ہو گا، فرض کریں آپ نے عہدہ چھوڑ دیا، الیکشن ہوا تو کیا ووٹنگ نہیں ہو گی، ووٹنگ یہ بھی ہو سکتی ہے میں کسی کو پسند نہیں کرتا یا پارٹی پسند نہیں کرتی، میں ووٹ نہیں دیتا، تو آپ منتخب تو نہیں ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ آپ کو ایک ووٹ بھی نہیں ملا۔وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے آپشن لے کر سیکیورٹی فراہم کرنے کا کہا، الیکشن کمیشن نے آئی جی کو پشاور میں سیکیورٹی فراہم کرنے کا خط لکھا، جیسے جیسے لوگ آتے گئے، میڈیا پر مطلع کیا جاتا رہا، جب آئی جی کو خط لکھ دیا تھا تو انہیں بتا دیا گیا تھا،