اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیس میں جہاں سیاست ہو اور انصاف نہ ہو تو عدالت کو دوبارہ سننا چاہیے،آپ نے کہا کہ اس وقت مارشل لاءتھا تو ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی لگادی گئی، آپ محنت کریں اور بتائیں کہ یہ عدالت باقی کیسز کو دوبارہ کیوں نہیں کھول سکتی؟ صدر مملکت بھی باقی کیسز کے ریفرنس بھیجیں، اس کیس میں ایک جج کا انٹرویو ہے، باقی کیسز میں کچھ اور موجود ہو گا۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ کیس کی سماعت کے دوران احمد رضا قصوری روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے احمد رضا قصوری کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا کہ آپ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں، پہلے عدالتی معاون کو بات مکمل کرنے دیں، آپ کو ان کی کسی بات پر اعتراض ہے تو لکھ لیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا ہمارے سامنے قانونی سوال کیا ہے؟ کیا ایک انٹرویو کی بنیاد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لےکر رائے دیں؟ کیا عدالت ایک انٹرویو کی بنیاد پر انکوائری کرے؟ انٹرویو ایک جج کا تھا جبکہ بینچ میں دیگر ججز بھی تھے۔جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ کیا ہم انٹرویو سے متعلقہ لوگوں کو بلاکر انکوائری شروع کریں؟ ہم صرف ایک انٹرویو کی ویڈیو دیکھ کرتو نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہوا تھا، آرٹیکل 186 کے تحت عدالت صرف قانونی سوالات پر رائے دے سکتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا یہ بھی بتا دیں کہ بھٹو ریفرنس میں کیا قانونی سوال پوچھا گیا ہے؟عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا کہ بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے کہا میں نے دباو¿میں فیصلہ دیا ،انہوں نے سید شریف الدین پیرزادہ کا خط پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا ذوالفقارعلی بھٹو کی بہن نے صدر مملکت کے سامنے رحم کی اپیل دائر کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے بذات خود کوئی رحم کی اپیل دائر نہیں کی تھی۔عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا عدالت کے سامنے سوال ذوالفقار بھٹو کی پھانسی پر عملدرآمد کا نہیں ہے، بدقسمتی سے ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی واپس نہیں ہو سکتی، عدالت کے سامنے معاملہ ایک دھبے کا ہے، ذوالفقارعلی بھٹو کو چار تین کے تناسب سے پھانسی کی سزا دی گئی، بعد میں ایک جج نے انٹرویومیں کہا کہ میں نے دباومیں فیصلہ دیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا اس کیس میں عدالت نے کوئی فیصلہ کیا تو کیا اپنے ہر فیصلے پر یہی کرنا ہو گا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ایک قانونی سوال جو میں سمجھتا ہوں کہ ذوالفقار بھٹو کیس کا فیصلہ غلط تھا، اس کیس میں صرف ایک جج کا انٹرویو آیا دیگر ججز بھی خاموش رہے۔بھٹو کیس میں نظرثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہو چکا، اب کیا طریقہ کار بچا ہے کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟چیف جسٹس نے کہا ہر فوجداری کیس میں جہاں سیاست ہو اور انصاف نہ ہو تو عدالت کو دوبارہ سننا چاہیے، آپ نے کہا یہ منفرد کیس ہے، باقی کیسز سے الگ عدالت اسے دیکھے۔اس وقت مارشل لاءتھا تو ایک سابق وزیراعظم کو پھانسی لگادی گئی، آپ محنت کریں اور بتائیں کے یہ عدالت باقی کیسز کو دوبارہ کیوں نہیں کھول سکتی؟ صدر مملکت بھی باقی کیسز کے ریفرنس بھیجیں، اس کیس میں ایک جج کا انٹرویو ہے، باقی کیسز میں کچھ اور موجود ہو گا۔مخدوم علی خان نے کہا فوجداری کیسز میں جہاں سیاست شامل ہو انصاف نہ ہو انہیں درست ہونا چاہیے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ذوالفقار بھٹو کیس میں نظرثانی کا دائرہ اختیار استعمال ہو چکا، اب کیا طریقہ کار بچا ہے کہ اس عدالت کا دائرہ اختیار ہو؟کیس کی سماعت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے نجی ٹی وی کے پروگرام جوابدہ کا کلپ بھی چلایا جس میں پروگرام کے میزبان ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کے 7 رکنی بینچ میں شامل ایک جج سے سوالات پوچھ رہے ہیں۔عدالتی معاون مخدوم علی خان نے کہا یہ فیصلہ انصاف سے زیادتی ہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کیا اس میں سپریم کورٹ قصوروار ہے؟ یا پھر پراسیکیوشن اور ا±س وقت کا مارشل لاءایڈمنسٹریٹر قصوروار ہے؟سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں صدارتی ریفرنس پر سماعت فروری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔