کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی چوری کرنے والی 17 سب سوئل واٹر کمپنیاں الزامات سے باعزت بری،لائنس یا اجازت نامہ بحالی کا امکان ہے جبکہ زینت فیکٹری لانڈھی میں 10 سال سے چلنے والے ہائیڈرنٹ بھی اپنا مسروقہ ضبط شدہ شامان واپس لینے میں کامیاب ہوگئے ہیں،ہائیڈرنٹ نے دوبارہ کام شروع کردیا ہے۔ پانی چوروں کے خلاف واٹر بورڈ نے یہ خصوصی آپریشن پولیس اور رینجرز کی نگرانی میں کیا تھا۔واٹر بورڈ کی پانی کی بڑی لائنوں 33، 48،56، 66 اور 84 قطر کی لائنوں سے پانی 4،6، 8 اور 12 انچ قطر کے ذریعے کئی سالوں سے گھناونا کاروبار اداروں کے افسران کی ملی بھگت سے کیا جارہا ہے۔ جن کے خلاف 17مختلف مقدمات درج کیئے گئے تھے جس کے بعد سب سوئل کمپنیاں کا اجازت نامہ یا لائنس منسوخ کردیا گیا تھا اور چوری ہونے والے پانی سے لیاری، ماری پوری کلفٹن اور سائٹ لمیٹیڈ میں سپلائی بڑھ گئی ہے اور صرف سائٹ کے صنعتی علاقوں میں ایک کروڑ گیلن پانی یومیہ میں اضافہ ہوچکا ہے اب ٹیکس نیٹ کتنا بڑھ گیا ہے یہ چند دنوں میں واضح ہوگا۔واٹر کارپوریشن کے مطابق سب سوئل واٹر کا لائنس 34 کمپنیوں کا دیاگیا تھا جو زیر زمین بورنگ کرکے لائنوں کے ذریعے ان فیکٹریوں میں پانی سپلائی کریں گی جہاں واٹر بورڈ کی لائن موجود نہیں ہے جبکہ دو بورنگ کمپنیاں کم ازکم دس لائن ڈال سکتی ہیں۔بورنگ مافیا زیر زمین پانی پہنچانے کے بجائے میٹھا پانی فیکٹریوں کو دیکر کروڑ روپے کما رہی ہیں اور اربوں روپے پانی چوری کررہی ہیں۔اس ضمن میں نیب، اینٹی کرپشن اور دیگر تحقیقاتی اداروں نے رشوت کمیشن، کک بیک یعنی چمک کے ذریعے مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ان پر قائم تمام مقدمات سی کلاس ہو چکے ہیں اور ان مقدمات میں ملوث تمام ملزمان بری کر دیئے گئے ہیں۔ سب سوئل کمپنیوں کے مالکان نے اس بارے میں تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سب مقدمات جھوٹے تھے اس لئے ختم ہوچکے ہیں اب صرف لائسنس کی بحالی کے عمل پر فیصلہ جلد ہونے کی توقع ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ سارا عمل چمک کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ خصوصی آپریشن میں دو سو سے زائد کنکشن کاٹ دیئے گئے تھے جبکہ مذید غیر قانونی کنکشن کی تعداد 7 سو سے زیادہ بتائی جاتی ہے،جن میں شکیل احمد مہر ولد حامد علی کی میسرز عمیر بورنگ واٹر سپلائر کا لائنس نمبر 1،2،3،4،5،6 کے خلاف مقدمہ نمبر 354/2023 درج لیاری ایکسرپس وے انڈر برج نزدیک پرانا گولیمار کراچی، جی تاج محمد خان ولد حاجی فضل الرحمان کی میسرز نیو کوہستان ٹرانسپورٹ کمپنی کا لائنس نمبر 9 کے خلاف مقدمہ نمبر 356/2023 درج لیاری ایکسرپس وے انڈر برج نزدیک پرانا گولیمار کراچی،عبدالواحد ولد عبدالوہاب خان کی میسرز شاداب انٹر پرائز کا لائسنس نمبر 13 کے خلاف مقدمہ نمبر 557/2023 درج لیاری ندی اعظم نگر لیاقت آباد کراچی۔صدیق علی خان کی میسرز عابد انٹر پرائز کا لائسنس نمبر 17 کے خلاف مقدمہ نمبر 493/2023 درج،غوثیہ کالونی نشتر روڈ مین تین ہٹی چوک،حبیب اللہ ولد عبدالوہاب خان کی میسرز حبیب اللہ انٹر پرائز کا لائنس نمبر 18 پر مقدمہ نمبر 1433/2023 درج، سعید ہوٹل ایم تھری پیٹرول پمپ اسکیم 33 کی 84 انچ قطر لائن HTM کراچی،محمد طیب خان کی میسرز محمد طیب خان اینڈ کمپنی کا لائسنس نمبر 24 کے خلاف مقدمہ نمبر 445/2023 اورمقدمہ نمبر 448/2023 درج لیاری ندی نزد مسرت سنیما ناظم آباد اور کابلی بازار گلی 3/4 رحمانیہ مسجد ناظم آباد کراچی،صاحبزادہ شبیر احمد کی میسرز صاحبزادہ شبیر احمد اینڈ کمپنی، کا لائسنس 31 کے خلاف مقدمہ 445/2023 اور مقدمہ نمبر 452/2023 پر درج ہوا تھا ضرر باز خان کی میسرز بسمہ اللہ انٹرپرائزکا لائنس 25کے خلاف مقدمہ نمبر 456/2023 درج خیبر گیٹ نزدیک نوراللہ تھل، جلال آباد ناظم آباد نمبر1 کراچی،جبکہ دیگر عثمان خان کی میسرز عثمان انٹر پرائز کا لائنس 26 کے خلاف مقدمہ نمبر 455/2023 درج ابسینا روڈ جلال آباد ناظم آباد نمبر1 کراچی،افضل خان ولد تعلیمان خان کی میسرز اے کے انٹر پرائز کا لائسنس نمبر27 پر مقدمہ نمبر 1434/2023 درج، دبئی ہوٹل فیز ٹو اسکیم 33 کراچی، لیاری ندی نزدیک مسرت سینما نمبر 1 کی 33 انچ قطر FTM خیبر گیٹ نور اللہ تھلہ جلال آباد ناظم آباد نمبر 1 کراچی،سید رئیس اشاہ ولد سید فیروز شاہ کی میسرز ایس آر ایس واٹر سپلائر کا لائسنس نمبر 32 کے خلاف مقدمہ 357/2023 درج لیاری ایکسرپس وے انڈر برج نزدیک پرانا گولیمار کراچی،ریاض گل کی میسرز رحمان اینڈ بردارز کا لائسنس نمبر 33 کے خلاف مقدمہ نمبر457/2023 اورمقدمہ نمبر 450/2023 درج، جاوید ہسپتال نزدیک عثمانیہ مسجد جہاگیر آباد ناظم آبادنمبر 1 لیاری ندی نزدیک مسرت سینما ناظم آبادکراچی،دلاور خان کی میسرز دلاور خان انٹرپرائز کا لائسنس 34 کے خلاف مقدمہ نمبر 454/2023 درج خیبر گیٹ نزدیک نوراللہ تھلہ جلال آبادناؓم آباد نمبر1کراچی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آپریشن میں سب سوئل کی پانچ کمپنیوں شکیل مہر کی کمپنی عمیر بورڈ واٹر سپلائر شامل ہیں جن میں پانچ مقدمات لیاری ایکسپریس وے کے انڈر برج میں 12 انچ قطر لائن سے پانی چوری کا انکشاف ہوا تھا۔ پانچ مختلف لائنوں سے پانی چوری کا کاروبار عرصہ دراز سے جاری تھا۔واٹر بورڈ کے بعد کراچی میں پانی کا نیٹ ورک ایسی ہی کمپنی نے لگایا ہے۔ ان کمپنیوں نے پرانا گولیمار میں چار بورنگ، گارڈن ویسٹ میں چار بورنگ، گلبہار میں چار لائسنس،اور شکیل مہر نے انگاریہ گوٹھ و الیاس گوٹھ میں چار لائسنس، ایک گلبہار دو مختلف مقامات پر چار لائسنس، ولی خان فردوس کالونی پر 4 بور کا لائسنس،محمد سام خان پرانا گولیمار پر چھ لائسنس، عبدالمصور 7 بورنگ لائسنس، محمد نور علی خان 9 بور لائسنس، عبدالصمد پورٹ قاسم میں 6 بور کا لائسنس، محمد عمران کورنگی میں 11 بور کا لائسنس، خواجہ محمد خان ملیر کورنگی انڈسٹریل ایریا میں 13بور کا لائسنس، محمد طیب خان ناظم آباد میں 3 بور کا لائسنس، ذر باز خان عثمانیہ کالونی ایک بور کا لائسنس، عثمان خان مسرت کالونی دو بور کا لائسنس، سید رئیس شاہ ناظم آباد دو بور کا لائسنس، صاحبزادہ شبیر احمد مشرف کالونی دو بور کا لائسنس، ریاض گل جہانگیر آباد دو بور کا لائسنس،دلاور جہانگیر آباد پر ایک بور کا لائسنس حکیم خان عثمان گوٹھ پر دو بور کا لائسنس، عبدالوحد لیاقت آباد میں تین بور کا لائسنس محمد اعظم لیاقت آباد کے دو مختلف مقامات پر چھ بور کا لائسنس، امان اللہ کا خالد شاہ کالونی نارتھ کراچی کے دو مختلف مقامات پر تین لائسنس، صدیق علی خان لیاقت آباد کے مختلف مقامات پر پانچ بور کا ایک لائسنس، شمس الرحمان لیاقت آباد چار بور کا لائسنس،جبکہ واٹر بورڈ کے مقابلے میں پانی کی یہ سب سوئل واٹر کمپنیاں بڑی کمپنیاں بن گئی ہیں جو اربوں روپے خود کر کے ٹیکس وصولی کے نظام کا مذاق اڑا رہی ہیں۔سائٹ میں پانی کا بڑا نیٹ ورک کام کررہا ہے جہاں باقاعدہ ماہانہ بلنگ وصول جاری ہے جس سے قومی خزانے کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ شہر میں خودکار واٹر سپلائی مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ان کی الگ الگ ریاستیں بن چکی ہیں جہاں نہ قانون ہے، نہ ٹیکس کا نظام ہے،نہ کسی مجاز ادارے سے NOC کی ضرورت ہے کیونکہ چمک میں بڑی طاقت ہے،پورے شہر کی بوند بوند پانی کو ترس رہا ہے اور یہ مافیا ہر جگہ پیسوں میں پانی سپلائی کر رہے ہیں۔ ہائیڈرنٹس کے بعد اربوں روپے مالیت کے پانی کا نیا(سب سوئل)گھناونا کاروبارعروج پر ہے۔ ہائیڈرنٹس اور اینٹی تھیفٹ سیل نے زیر زمین پانی نکالنے کے غیر قانونی کاروبار کا اجازت نامہ جاری کر کے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں جبکہ اس غیر قانونی کام کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح روز بروز گرتی جا رہی ہے جس کے مستقبل میں بہت خوفناک نتائج نکلیں گے اور کسی بھی وقت بڑی بڑی عمارتیں زمین بوس ہو جائیں گی اور یہ زلزلے سے زیادہ تباہی لائیں گی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بارے مٰیں ادارے کے نہ ایگزیکٹیو انجنیئر،نہ سپریٹنڈنٹ انجینئر،نہ چیف انجینئر سمیت تمام افسران سے نہ مشاورات اور نہ کسی کے سامنے یہ مافیا جوابدہ ہیں۔ سب سے بڑا نیٹ ورک شکیل مہر نامی فرم نے ساڑھے تین سو سے زائد بورنگ لگا کر سائت لمیٹڈ کے صنعتی زون میں پانی سپلائی کرنے کا دعوی کیا ہے۔ کورنگی، فیڈریل بی ایریا، نارتھ کراچی، لانڈھی، بن قاسم کے ساتھ سپرہائی وے کے صنعتی علاقوں میں دیگر فرمیں بھی زیر زمین پانی کے اس گھناؤنے کاروبار کی اس دوڑ میں شامل ہوگئی ہیں۔دوسری جانب شہر میں زیر زمین پانی نکال کر خلاء پیدا کیا جارہا ہے جس سے زلزلے اور قدرتی آفات میں ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی اور انسانی جانوں کو خطرہ میں ڈال دیا گیا ہے،جس سے بڑے طوفانوں کے ساتھ خوفناک تباہی کے خطرات بڑھ گئے ہیں،جبکہ جیولوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سوئل واٹر ایک بہت ہی اہم نوعیت کے حساس معاملات ہے۔ اس کا تجریہ بہت محتاط انداز میں کیا جاتا ہے،لہذا گنجان آباد شہری علاقوں میں پانی زمین سے نکالنے کا فیصلہ سائنسی بنیاد کے اعداد وشمار پر مبنی ہونا چاہیے کہ ایک مخصوص مدت میں کتنا ریچارج ممکن ہے۔ مختلف علاقوں میں عمارتوں کے اچانک زمین بوس ہونے کا ماہرین خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر سب سوئل واٹر کے کاروبار کی محدود اجازت دی گئی تھی۔اس کیلیئے قانون سازی بھی کی گئی اور بڑی مشاورات کے بعد اس کے قواعد وضوابط بھی بنائیں گئے ہیں لیکن چمک کے آگے اور کراچی سسٹم کے تحت جسے کلفٹن کا ایک بڑا گھر چلا رہا ہے ان مافیاز نے تمام اصول و ضوابط پاوں تلے کچل دیا ہے جس کی وجہ سے خدشہ ہے کہ کراچی میں عنقریب خوفناک تباہی آئے گی۔