نائب امیر جماعت اسلامی، سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے 23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر افواجِ پاکستان کی پرشکوہ، قابلِ فخر پریڈ اور مہارت کا مظاہرہ قومی اعتماد میں اضافہ کرے گا۔ قراردادِ پاکستان منشورِ آزادی ہے، قراردادِ پاکستان خواب نہیں ایسا پروانہ ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کی تقدیر میں لکھا ہوا تھا۔ اسلامی، جمہوری، آزاد مسلم ریاست پاکستان کا قیام اِس کی منزل تھی۔ قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہونا ابھی باقی ہیں۔ طویل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کو اسلامی، مستحکم اور خوشحال پاکستان کی منزل ملنا ہے۔ قائداعظم اور علامہ اقبال نے جو منشورِ آزادی، دو قومی نظریہ اور جمہوریت، قرآن و سنت کی بالادستی کا لائحہ عمل دیا آج بھی زندہ حقیقت ہے۔
لیاقت بلوچ نے کہا کہ او آئی سی اسلام آباد کانفرنس ہوگئی، بہت اچھا ایونٹ تھا۔ اسلامی ممالک اور چین کی شرکت خوشکن ہے۔ اِس اجلاس میں بھی تقاریر، خوشگوار خطاب اور قراردادیں چھائی رہیں۔ اجلاس بھی اچھی خواہشات پر ہی اختتام پذیر ہوا۔ حکومت کانفرنس کا پَر اپنی ٹوپی میں سجائے گی، لیکن یہ امر نوشتہ دیوار ہے کہ مسئلہ کشمیر پر کانفرنس دوٹوک مؤقف دینے میں ناکام رہی، افغانستان میں افغان عوام کی کامیابی اور حکومت کو تسلیم نہیں کیا گیا، مشترکہ اقتصادی، تعلیمی و تحقیقی، سائنسی و تکنیکی ترقی کے حوالے سے کوئی حکمتِ عملی نہ بن سکی۔ بے جان، بے نتیجہ کانفرنس کا انعقاد مشکل نہیں ہوتا، بامقصد، نتیجہ خیز، اُمت کے اتحاد اور مشترکہ لائحہ کے لیے بڑی محنت، وژن اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ عمران خان سرکار مشترکہ، متحدہ قومی ترجیحات اور خارجہ پالیسی بھی تشکیل نہیں دے سکے۔ نمائشی کام کا نہ پہلے کوئی فائدہ تھا اور اب بھی یہ ایکسرسائیز کارِ لاحاصل ہی ہوگی۔
لیاقت بلوچ نے سیاسی کمیٹی اور گوجرانوالہ میں معززین کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت خطرے میں ہے۔ حکومت اشتعال، گھبراہٹ اور خوف و دہشت کا شکار ہے۔ بدزبانی، الزام تراشیاں اور سوشل میڈیا کے انتہائی سنسی خیز اور اشتعال انگیز استعمال نے حالات کو گھمبیر بنادیا ہے۔ حکومت سے ناراض ارکان کی شکایات کے ازالہ کی بجائے ان پر الزام تراشیاں، الزامات کی بوچھاڑ سے حکومت نے اپنا دھڑن تختہ کرلیا ہے۔ اِن حالات میں حکومت کچھ بھی ڈلیور نہیں کرسکتی۔ بے اعتمادی، بے یقینی اور زیادہ خرابیوں کو جنم دے گی۔ پتوکی کے المناک واقعہ نے نظام و انتظام کی بوسیدگی ظاہر کردی ہے۔ قومی معیشت، گڈگورننس، انتخابی اصلاحات، آزاد عدلیہ اور انتخابی معاملات سے اسٹیبلشمنٹ کی بے دخلی پر قومی ڈائیلاگ اَسی وقت پائیدار ہوگا جب بِلاتاخیر نئے عام انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ ہی بحرانوں کا آئینی حل ہے۔