اسلام آبا د(نمائندہ خصوصی) نے کہا ہے کہ نئی فصلیں متعارف کرنا ہوں گی ،سویا بین کی کاشت کے لیے نئی زمینیں تلاش کی جا نی چاہیں،سویا بین کی کاشت کے فروغ کے کیے اس کی سپلائی چین کو بھی تشکیل دینا ہو گا ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان میں سویا بین کی کاشت کے حوالے سے قومی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا،ڈاکٹر کوثر عبد اللہ نے کہا کہ سویا بین کی کاشت سے برداشت تک مشینری کا استعمال بھی اس کی کاشت کے فروغ میں اہم ہے،بدقسمتی ہے جی ایم او کے نام پر سویا بین کے جہازوں کو روکا گیا ،بائیو سیفٹی گائیڈ لائنز کو فالو کیا جا نا چا ہیے،بڑی مقدار میں زر مبادلہ زرعی اجناس کی درآمد پر خرچ ہو تا ہے،جی ایم او سویا بین اس لیے درآمد کیا جا تا ہے کیونکہ یہ سستا ہے،امد ہے کہ ملک میں سویا بین کی کاشت کو فروغ ملے گا ،تما م زرعی تحقیق کے اداروں نے بے پناہ کام کیا ہے،چیئرمین پی اے آرسی ڈاکٹر غلام محمدعلی نے پاکستان دو ہزار ملین ٹن سویا بین پیدا کرتا ہے،اگر کاشتکاروں کو مناسب قیمت ملے تو سویا بین کی کاشت کو فورغ دیا جا سکتا ہے،وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اس شعبے میں ہمیں مکمل سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ہر سال ساڑھے آٹھ ملین ڈالر کی سویا بین درآمد کرتے ہیں،پاکستان کے ہر علاقے میں سویا بین کاشت کیا جا سکتا ہے،سویا بین پروٹین کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے،دنیا بھر میںسویابین پروٹین کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہے،پاکستان دو ہزار ملین ٹن سویا بین پیدا کرتا ہے،ڈاکٹر غلام محمدعلی نے مزید کہا کہ پاکستان میں سویا بین کی فصل کی فروخت کے مسائل ہیں،اگر کاشتکاروں کو مناسب قیمت ملے تو سویا بین کی کاشت کو فورغ دیا جا سکتا ہے،اس موقع پرپاکستان میں ایف اے او کی نمائندہ فلورنس رولی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زراعت کے شعبے میں ریگولیشنز کے ضرورت ہے،سویا بین 80فیصد پولٹری انڈسٹری درآمد کرتی ہے،امپورٹ اور مقامی پیدوار میں توازن قائم کرنا چاہیے،وزارت نیشنل فوڈ سیکورٹی اس شعبے میں ہمیں مکمل سپورٹ فراہم کر رہی ہے،بعد ازاں وآس چا نسلر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وآس چانسلر ڈاکٹر اقرار احمد خنا نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں جہاں مکئی کاشت ہوتی ہےوہاں سویا بین کاشت کیا جا سکتا ہے،سویا بین مختصر عرصے کی فصل ہے،کاشتکار وں کو فصل کی کاشت کے لیے تیار کرنا ہو گا،سویا بین کی بیجوں کی رجسٹریشن کے عمل کو جلد مکمل کیا جا نا چا چاہیے ،انہوں نے کہا کہ سویا بین کے حوالے سے سویا بین کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے،ہم کئی سالوں سےپولٹری کے شعبےمیں جی ایم او سایا بین استعمال کر رہے ہیں،سویا بین کی کاشت سے ستر فیصد پانی کو بچایا جا سکتا ہے۔سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکورٹی کیپٹن (ر)محمد محمود نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانچ ارب ڈالر کی تیل دار اجناس سالانہ امپورٹ کی جاتی ہیں،ہمیں اس امپورٹ بل کو کم کرنا ہے،مقامی پیداوار میں اضافہ کر کے ہم امپورٹ بل کو کم کر سکتے ہیں،اس وقت پچاس ہزار ایکڑ پر زیتون کاشت کیا گیا ہے،دو ہزار تیس تک ہم ذیتون کا تیل امپورٹ نہیں کریں گے،سویا بین کی کئی ورائٹیاں تیار کی گئی ہیں،کسان اسی وقت سویا بین کاشت کرے گا جب اسے منافع نظر آئیگا ،جی ایم او سویا بین کے بغیر ہمارا فائدہ نہیں ہو گا،جی ایم او کے حوالے سے ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا،کسانوں کو مختلف معاشی ماڈل دیناہوں گے۔