اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)سپریم کورٹ نے لاہورہائیکورٹ کا آراوز اور ڈی آر اوز سے متعلق فیصلہ معطل کردیا اور درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو آج ہی انتخابی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے انڈرٹیکنگ دی کہ آج شیڈول جاری کردیا جائے گا۔سپریم کورٹ نے عمیر نیازی کو الیکشن کمیشن کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیا اور کہا کہ عمیرنیازی جواب دیں کہ کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے؟ عدالت نے الیکشن کمیشن کی اپیل باضابطہ سماعت کیلئے منظور کر لی اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کر دیے۔۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ امید ہے اتنخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے۔جج اور درخواست گزار نے سپریم کورٹ کے حکم کو نظر انداز کیا ، سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے درخواست گزار عمیر نیازی کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر ہونے والی درخواست کے بعد سپریم کورٹ نے تین رکنی بینچ تشکیل دیا، جس کی سربراہی چیف جسٹس ا?ف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 13 دسمبر کے حکم نامے کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لاہور ہائی کورٹ نے سیکشن 50 کے سب سیکشن 1 بی اور 51 کی سب سیکشن 1 کو غیر آئینی قرار دیا، الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کی یہ دونوں شقیں گزشتہ انتخابات میں بھی تھیں لیکن کبھی کسی نے چیلنج نہیں کیا گیا۔عدالتی حکم میں لکھا گیا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ میں کیس کے ذریعے انتخابات 8 فروری کو طے ہوئے، تمام صوبائی حکومتوں کی سپریم کورٹ میں نمائندگی تھی، ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا کوئی بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہ کرے۔حکم نامے میں لکھا گیا کہ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا ابھی انتخابات کے انعقاد بارے اقدام لے رہے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو 8 فروری کو الیکشن نہیں ہوسکیں گے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا آج انتخابی شیڈول جاری ہونا تھا۔حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بتایا گیا اگر ہائی کورٹ کا حکمنامہ برقرار رہا تو الیکشن پروگرام جاری نہیں ہوسکے گا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکمنامے میں تضاد ہے۔سپریم کورٹ کے حکم میں لکھا گیا ہے کہ عمیر نیازی کو توہین عدالت قانون کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیا جارہا ہے اور ا±ن کیخلاف توہین عدالت کا کیس چلایا جائے گا، عمیر نیازی بتائیں ان کیخلاف توہین عدالت کی کاروائی کیوں نہ چلائی جائے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ امید ہے الیکشن 8 فروری 2024 کو ہی ہوں گے۔ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل شکیل سواتی نے کہا کہ ہم اس کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔اس پر جسٹس سردار مسعود نے کہا کہ آپ کوشش کی بات کیوں کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری فلائٹ مس ہوئی آپ کیسے مداوا کرینگے؟ لیکن کوئی بات نہیں ہم عدالت میں کیس لگا کر سن رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست لے کر کون گیا تھا؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی ا?ئی نے درخواست دائر کی تھی۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل تحریک انصاف عمیر نیازی نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور الیکشن ایکٹ کی شق 50اور 51 کو چلینج کیا تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں انصاف دے رہا ہوں، کمیٹی میں مشاورت کے بعد کیس آج مقرر ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن صاحب مصروفیت کے باعث شریک نہیں ہوئے۔ اس لئے سینئر جج منصور علی شاہ کو بینچ میں شامل کیا، یہ وقت شفافیت اور احتساب کا ہے۔چیف جسٹس نے بتایا کہ جو بینچ کیس سن رہا ہے اس کی منظوری جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی دی ہے کیونکہ میں اکیلے بینچ تشکیل نہیں دے سکتا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان (الیکشن کمیشن کے وکیل) کا کہنا ہے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رابطہ کیا، بیورو کریسی سے آر آوز ڈی آر آوز لینے سے شفافیت پر کیسے سوال اٹھاَ تحریک انصاف کو اس وقت کیوں یاد آیا جب آر آوز ڈی آراوز تعینات ہوگئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریٹرننگ آفیسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز دینے کا استحقاق متعلقہ ہائیکورٹس کا ہے۔اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ڈی آر اوز اور آر آوز نہیں دیے۔ فروری میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ کہہ درخواست مسترد کردی تھی کہ 13 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیا تحریک انصاف چاہتی ہے ملک میں انتخابات نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا ہائیکورٹ کا ایک جج اپنے چیف جسٹس کو کہہ سکتا ہے جوڈیشل افسران نہ دو، کیا اب لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی