پشاور(نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلزپارٹی کے چےئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قتل کا انصاف مانگنا ہر کسی کا آئےنی حق ہے ،ذوالفقار علی بھٹو کے قتل میں ملوث ججوں، وکلاء،سیاستدانوںسمیت دیگر کرداروں کو بے نقاب کیا جائے ،دہشتگردی میں اضافہ ہورہا ہے جو کہ افسوسناک ہے ،دہشتگردی کا مقابلہ کسی ایک سیاسی جماعت نہیں سب نے ملکر کرنا ہے ۔ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں، جائیں، احتساب ہو، ملک،قوم، ای پی ایس کے شہدا سب کو بتایا جائے کہ ان کے خون پر سودا کیسے ہوا، کب ہوا، کیوں ہوا اور کس نے کیا؟افغان جیلوں میں پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے والوں کو طالبان حکومت نے جیل سے نکالا ۔پشاور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے، آپس میں لڑنے سے مزید مسائل پیدا ہوں گے،سیاسی اختلافات رکھے جاسکتے ہیں مگر جب ملک مشکل میں ہو تو ہمیں چاہیے کہ ہم اختلافات بھول کر ان مسائل کا مقابلہ کریں۔ انہیں نے کہا ہم سب نے مل کے اس لیے اتنی قربانیاں دیں تھی تاکہ دہشتگردی کا خاتمہ ہو، خیبر پختون خوا کی عوام،وہاں کی پولیس، سیکیورٹی ادارے صف اول میں کھڑے ہوکر اس دہشتگردی کا مقابلہ کر رہے تھے اور پوری دنیا یہ اعتراف کر رہی تھی کہ پاکستان نے دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے مگر ہم نے پتہ نہیں کیوں پارلیمان کو،عوام کو اعتماد میں لیے بغیر نا صرف دہشتگردوں سے بات چیت کی بلکہ ان لوگوں کو بھی جیل سے نکال دیا جو سنگین دہشتگردانہ حملوں میں ملوث تھے۔بلاول بھٹو نے کا کہنا تھا کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی اے تو اس وقت بھی ان کے جیلوں میں بہت سے ایسے لوگ بند تھے جنہوں نے پاکستان میں دہشتگردی کی، جب افغانستان میں حکومت تبدیل ہوئی اور وہ لوگ جیلوں سے باہر نکلے تو ہم نے ان کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کی بلکہ ہم نے انہیں دعوت دی کہ آپ آئیں، اسی قبائلی علاقوں میں رہیں جہاں کی عوام نے قربانیاں دے کر ان کو بھگایا تھا تو پھر امن ہوگا۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ کل کا جو واقعہ تھا وہ اس کی تازہ مثال ہے کہ کس قسم کا امن ہم نے قائم کیا ہے، اس ایک فیصلے نے پاکستان کو 10 سال پیچھے دھکیل دیا ہے، اسی وجہ سے پم نے پاکستان میں افغانستان کو اسٹریٹیجک گہرائی دلوادی ہے،اس کی وجہ سے ہماری پولیس، فوجی، عوام شہید ہوتے جارہے ہیں۔بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی تحقیقات کی جائیں، احتساب ہو، ملک،قوم، ای پی ایس کے شہدا سب کو بتایا جائے کہ ان کے خون پر سودا کیسے ہوا، کب ہوا، کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ان کا کہنا تھا کہ کل میں سپریم کورٹ گیا،12 سال بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ریفرنس کے مقدمے کی سماعت ہوئی،میں جسٹس قاضی فائز عیسی سمیت تمام جج صاحبان کا شکرگزار ہوں کہ ہمیں یہ موقع دیا گیا،ہم اس موقع سے ملک،نظام اور جمہوریت کی بہتری چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایسا انصاف ملے جس سے تاریخ درست ہو اور ان سب کو بے نقاب کیا جائے جو اس قتل میں ملوث تھے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ساتھ ساتھ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جمہوری نظام اور عدلیہ کے لیے ایک موقع ہے کہ ہم پاکستان کو بحران سے باہر نکال سکیں ۔ا نہوں نے کہا کہ ہم اس ملک ،نظام اور جمہوریت کی بہتری چاہتے ہیں، ہم چاہتے ہیں ذوالفقار علی بھٹو شہید کو انصاف دلایا جائے، ہم چاہتے ہیں تاریخ اور لا بک کو درست کیا جائے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ایک آمر کے وقت مرضی کا فیصلہ وزیراعظم کے خلاف کرایا گیا، ایک فیصلہ کرایا گیا جو پھانسی کا تھا، پاکستان میں بہت سے وزیراعظم رہے، قائد عوام نےایٹم بم دلایا،پوری مسلم امہ کو اکٹھا کیا، قائد عوام نے مسلم امہ کو بتایا آپ کا تیل آپکی طاقت ہے اسکو استعمال کریں۔ان کاکہنا تھا کہ 11سال بعد ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کی سماعت پر چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں، زندہ ہے بھٹو کے نعرے کا مذاق اڑانے والوں کو شاید اب اندازہ ہورہا ہوگا، قائدعوام کو انصاف دلوا کر یہ دروازہ ہمیشہ کیلئے بندہونا چاہیے ، ہمارے سپورٹر اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں جتنے میاں صاحب کے سپورٹر ان کے ساتھ ، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا ریفرنس چل رہا ،انصاف دلوانا چاہتا ہوں تاکہ کل کوئی مینڈیٹ لیکر وزیراعظم بنے تو اس کے ساتھ اس قسم کا واقعہ نہ ہو۔ بلاول بھٹو کاکہنا تھا کہ میں اس ملک کا 18ماہ وزیر خارجہ رہا ہوں، اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ یہاں کتنا پوٹینشل موجود ہے، ہمیں نفرت،تقسیم اور انا کی سیاست چھوڑنی ہوگی، میں کھیلوں گا اور کسی کو نہیں کھیلنے دوں گا ،ایسی سیاست چھوڑنی ہوگی۔چیئرمین پی پی پی کاکہنا تھا کہ ہمارے پاس اپنے وسائل ہیں کہ اگر ہم دنیا کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں تو ہمارااپنا فیصلہ ہے، اگر ہم نارتھ کوریا بننا چاہتے ہیں تو وہ بھی ہماری مرضی ہے، شہید بی بی جلا وطن تھیں تو میں دبئی میں رہتا تھا، دبئی کو خیبر پختونخوا کے لوگوں نے اپنے خون پسینے سے بنایا، غربت، بیروزگاری اور روزگار نہ ہونے کا حل بھی ہم نکال سکتے ہیں، اگر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہے تو کسی مسئلے کا حل نہیں نکال سکتے۔