کراچی( بیورو رپورٹ) پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر قانون کے مطابق 262 ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دے، جن کی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زیر التوا ہیں۔ فیصلوں میں تاخیر کے باعث ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوں گی۔ یہ مطالبہ پی پی ایم اے کے مرکزی چیئرمین میاں خالد مصباح الرحمن نے پیر کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ ان کے ہمراہ پی پی ایم اے کے سابق چیئرمین زاہد سعید ڈاکٹر قیصر وحید اور ایسوسی ایشن کے دیگر عہدیداران بھی موجود تھے۔ پی پی ایم اے کے چیئرمین نے صحافیوں کو بتایا کہ ان ادویات کی قیمتوں میں نظرثانی انتہائی ضروری ہو گئی ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے پچھلی بار جب اضافے کی اجازت دی گئی تھی تو ڈالر کی قیمت 200 روپے سے کم تھی۔ شرح مبادلہ، ریکارڈ مہنگائی کی وجہ سے ادویات کی پیداواری لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر حکومت غیر ضروری طور پر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دینے کے فیصلے میں تاخیر کرتی رہی تو مزید ملٹی نیشنل ڈرگ پروڈیوسرز کے پاس اپنے کاروبار کو سمیٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی تعداد میں گزشتہ سالوں کے دوران پہلے ہی کمی آئی ہے اور مذید مسائل کے وجہ سے ملک کی معاشی صورتحال بھی خراب ہوگی۔ چیئرمین پی پی ایم اے نے میڈیا کو بتایا کہ 100 سے زائد ضروری ادویات پہلے ہی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں اور ادویات کی تعداد میں مزید کمی ملک میں مریضوں کے لیے سنگین نقصان دہ ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں مریض جعلی اور اسمگل شدہ ادویات پر انحصار کرتے ہیں جب مقامی طور پر تیار کردہ ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی فارماسیوٹیکل انڈسٹری جو کہ ملک میں ادویات کی 95 فیصد طلب پوری کر رہی ہے لیکن اگر حکومت نے ادویات کی قیمتوں کے تعین کے نظام پر نظرثانی نہ کی تو انڈسٹری مذید تباہی کی طرف جائے گی۔ پی پی ایم اے کے چیئرمین نے کہا، ’’ہم حکومت سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ زمینی حقائق پر توجہ دے جو ملک میں ادویات کے پروڈیوسرز کو متاثر کر رہے ہیں کیونکہ ادویات کے طویل عرصے سے زیر التوا کیسز کو قانون کے مطابق جلد نمٹایا جانا چاہیے۔‘‘ انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ملک میں کسی بھی دوسری صنعت کی طرح ادویات تیار کرنے والوں کو بجلی، گیس، مزدوری اور خام مال کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے کاروبار کرنے کی لاگت میں مسلسل اضافے کے سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی ادویات بنانے والے اب ایسی دوا نہیں بنا سکتے جس کی زیادہ سے زیادہ خوردہ قیمت گزشتہ دو سالوں سے منجمد کر دی گئی ہو۔ انہوں نے کہا کہ مقامی ادویہ سازی کی صنعت کے معاملے میں قیمتوں کے تعین کے نظام کو مؤثر طریقے سے کام کرنا چاہیے کیونکہ ادویات کا 95 فیصد خام مال درآمد کیا جاتا ہے جن کی قیمتیں روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ بڑھ جاتی ہیں۔ رحمان نے کہا کہ پاکستان کی دواسازی کی سالانہ برآمدات محض 300 ملین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہیں اسے 5 بلین ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ ادویات کی صنعت کے لیے مسلسل سازگار پالیسیوں پر عمل درآمد کرے جس سے اسے ریاستی سطح پر اپنانے کی اجازت دی جائے۔