کراچی(نمائندہ خصوصی)اداکاری سکھائی نہیں جاتی ،اداکار یاتو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ،فلم معاشرے کی عکاس ہے موجودہ دور میں فلم انڈسٹری کی صورتحال خراب ہے حکومت اس انڈسٹری پر توجہ دے ۔آرٹ اور کلچر بھی پانچواں اہم ستون ہے ۔70 کی دہائی تک فلم ترقی کررہی تھی وہی دور سنہرا تھا ۔آج کے دور کے نوجوان فنکار بہت ذہین ہیں وہ کچھ دیر قبل ہی اسکرپٹ دیکھتے ہیں اور ان میں سے بعض بہت عمدہ پرفارم بھی کردیتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایک ڈرامے کی ریکارڈنگ کے لیے ایک ہفتے تک ریہرسل کی جاتی تھی تب کہیں جا کر ڈرامہ نشر کیا جاتا تھا ۔ہماری کئی فلموں کی نقل پڑوسی ممالک میں بھی بنی ہیں ،ان خیالات کا اظہار مقررین نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے دن پاکستانی فلم اور ڈرامے کے مشاہیر کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مقررین میں پاکستانی فلموں کے لیجنڈ مصطفی قریشی اور منورسعید سمیت معروف اسکرپٹ رائٹر ہاشم ندیم ،اختر وقار عظیم اور عقیل عباس جعفری شامل تھے ۔تقریب کی نظامت کے فرائض عظمی الکریم نے انجام دیئے۔مصطفی قریشی نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ کو کامیاب اردو کانفرنس کے انعقاد اور صوبائی حکومت میں نگراں وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھانے پر مبارک باد پیش کی۔انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی اداکاری کا آغاز سب سے پہلے تھیٹر سے کیا اس کے بعد ریڈیوپرصداکاری کی اس کے بعد پاکستان ٹیلی ویژن اور بعد ازاں فلموں میں کام کیا انہوں نے کہا کہ یہ المیہ ہے کہ ہماری فلم انڈسٹری آج غیر فعال ہے جبکہ فلمیں دیکھنے والوں کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ایجوکیٹ بھی کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں شروع میں اردو فلمیں کرتا تھا کیونکہ پنجابی میری زبان نہیں تھی مگر منور سعید کے ہمت دلانے پر میں نے پنجابی فلموں میں بھی کام شروع کردیا ، میری پہلی جوڑی فلموں میں محمد علی کے ساتھ بنی اور اس کے بعد سلطان راہی کے ساتھ بہت کام کیا۔ منور سعید نے کہا کہ اداکاری کے جراثیم قدرتی طور پر ہوتے ہیں اسے صرف پالش کرکے چمکایا جاسکتا ہے اسی طرح کسی کو بھی زبردستی اداکارنہیں بنایا جاسکتا ۔انہوں نے کہا کہ تھیٹر میں کام کرنے سے اداکارمیں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوتا ہے کیونکہ براہ راست پرفارم کرنے میں غلطی کی کوئی بھی گنجائش نہیں ہوتی ۔اس موقع پر منورسعید نے ماضی کے کچھ ایسے دلچسپ فلمی واقعات بھی سنائے جسے شرکائے محل نے بہت پسند کیا۔ ہاشم ندیم نے کہا کہ میرا تعلق بلوچستان کے ایک چھوٹے سے علاقے مستونگ سے ہے۔مگر میں سمجھتا ہوں کہ جتنا چھوٹا علاقہ ہوتا ہے وہاں کے بچے کا تخیل اتنا ہی بڑا ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے شکیل عادل زادہ کی کہانیاں پڑھی ہیں مجھے معلوم ہوا کہ کہانی کا راپنی من پسند چیزوں کو اپنے سامنے بھی لاسکتا ہے ۔ اگر مجھے کوئی شام اچھی لگتی ہے تو میں وہی شام لکھ دیتا ہوں انہوں نے کہا کہ میرا مقبول عام ڈرامہ ”پری زاد“ بھی اسی وجہ سے لکھا گیا کہ میرے اندر خود ایک کہانی بُنتی رہی اور یہی کہانی میرے قلم سے ”پری زاد“ کی صورت میں ڈرامے کی صورت میں نشر ہوگئی۔ اختر وقار عظیم نے کہا کہ آج کل جو کام ہورہا ہے وہ اچھا ہورہا ہے ماضی میں باصلاحیت لوگ پی ٹی وی کا رخ کرتے تھے اور پی ٹی وی بھی باصلاحیت لوگوں کو تلاش کرکے انھیں مواقع فراہم کرتا تھا۔ عقیل عباس جعفری نے کہا کہ 70 کی دہائی کے بعد فلم بینوں کے دیکھنے کا رجحان بھی تبدیل ہوگیا ہے ۔ جو آرٹ فلمیں 60 کی دہائی میں ہمارے یہاں بن سکتی تھیں وہ فلمیں یہاں نہیں چلیں۔انہوں نے کہا کہ اب فلم بین فلم کی طرف دوبارہ سے واپس آرہے ہیں جو خوش آئند عمل ہے۔