کراچی(نمائندہ خصوصی)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ سولہویں عالمی اردو کانفرنس 2023 کے تیسرے دن بچوں کے ادب کے مشاہیر کے عنوان سے منعقدہ اجلاس میں صوفی غلام مصطفی تبسم ،اسماعیل میرٹھی، مسعود احمد برکاتی،اشتیاق احمد اور اے حمید کی بچوں کے لیے ادبی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔اجلاس کی صدارت مہنا زرحمان نے کی۔تقریب کی نظامت علی حسن ساجد نے انجام دی اس موقع پر ان کی کتاب ”بڑھتے چلو“ کی رونمائی بھی کی گئی۔حنیف سحر نے علی حسن ساجد کی کتاب ”بڑھتے چلو“ اور ا ن کی شخصیت پر بھی اظہار خیال کیا جبکہ مصنف نے مہنازرحمان ،شہناز احد اورشمع زیدی کو اپنی کتابیں بھی پیش کیں صدرمحفل مہنازرحمان نے بچوں کے ادب کو فروغ دینے کے لیے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے بالخصوص اس موضوع پر تقریب کا انعقاد کرنے کے لیے منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں بچوں اور بچوں کے ادب کو کم اہمیت مل رہی ہے۔ بچوں کے لیے جو ادیب لکھ رہے ہیں موجودہ دور میں انہیں بھی وہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے جو دی جانی چاہیے۔ انہوںنے کہا کہ ایسے حالات میں بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے جو تقاریب منعقد کی جاتی ہیںوہ دم غنیمت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بچوں کے ادب کی ترویج واشاعت کے ساتھ ساتھ اسے لکھنے والے نئے قلم کاروںکی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔صوفی غلام مصطفی تبسم کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف سحر نے کہا کہ صوفی تبسم چاراگست 1891 کو امرتسرمیں پیدا ہوئے۔ان کا فن اور کام دیکھ کر حیرت کے در اس طرح کھلتے ہیں کہ ایک بند نہیں ہوتا دوسرا کھل جاتا ہے صوفی تبسم ایک حیرت کدہ کا نام ہے وہ ہر میدان کے شہسوار تھے۔انہوں نے بچوں کے لیے بے شمار کتابیں لکھیں۔1965 ءمیں انکے لکھے ہوئے نغمات نے بہت شہرت حاصل کی۔ اسماعیل میرٹھی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے علی حسن ساجد نے کہا کہ وہ بچوں کے اولین شعراءمیں سے ایک تھے۔1860 ءسے ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔اسماعیل میرٹھی کچھ اس انداز سے بچوں کے لیے لکھتے کہ وہ بچوں کو غیر شعوری طور پر یاد ہوجایاکرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اسماعیل میرٹھی کی نظمیں ”ضرب المثل“ کے طور پر بھی زبانِ زد عام ہوئیں۔مسعوداحمد برکاتی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے راحت عائشہ نے کہا کہ مسعود احمد برکاتی1935 ءمیں پیدا ہوئے۔وہ 16 سال کی عمر میں ہی پاکستان آگئے تھے۔1953 ءمیں ان کی ملاقات حکیم سعید سے ہوئی اور اس کے بعد دمِ آخرتک حکیم سعید کے ادارے سے ہی وابستہ رہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا ہے جبکہ مقبول ترین رسائل بھی انکی ادارت میں شائع ہوئے۔اشتیاق احمد کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فاروق احمد نے کہا کہ اشتیاق احمد 5 جون1944 ءکو پیدا ہوئے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم جھنگ سے حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ جاسوسی ادب میں اشتیاق احمد اور ابن صفی کے نام بہت نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اشتیاق احمد نے مختصر افسانے بھی بہت لکھے ہیں۔ مگر ان کی وجہ شہرت بچوں کے لیے لکھے گئے جاسوسی ناول ہی رہے۔انہوں نے کہا کہ اشتیاق احمد کے تمام جاسوسی ناول ہمارے معاشرے ہی کے عکاس ہیں۔کیونکہ جاسوسی نگاری معاشرے ہی سے جڑی ہوتی ہے۔ اے حمید پر گفتگو کرتے ہوئے مصطفی ہاشمی نے کہا کہ اے حمید نے یوں تو بہت لکھا اور سب ہی پسند کیا گیا مگر 1990/92ءکی دہائی میں ٹیلی ویڑن پر بچوں کے لیے انکی لکھی ہوئی ڈرامہ سیریل عینک والا جن کو جو مقبولیت حاصل ہوئی اس جیسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔یہ ڈرامہ سیریل 285 اقساط پر مشتمل تھی جبکہ اس ڈرامے کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے الحمرا اسٹیج پر بھی تھیٹر پر پیش کیا گیا۔ عینک والا جن کے حوالے انھوں نے جو کردار تخلیق کردار کئے وہ امر ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اے حمید اپنے ابتدائی دور میں ریڈیوں سے وابستہ رہے بچوں کے لیے انکا سب سے پہلا ناول نیا گھوڑا تھا۔اے حمید اپنی لازوال کہانیوںکی بدولت بچوں اور بڑوں میں زندہ رہیں گے۔