کراچی ( نمائندہ خصوصی ) وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے کہا کہ عالمی اردو کا نفرنس نہ صرف شہر کراچی، صوبہ سندھ اور پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ہماری پہچان اور ایک برانڈ ہے جو گزشتہ 16 برسوں سے مسلسل منعقد کی جارہی ہے۔ عالمی اردو کا نفرنس ہماری بلکہ پوری ملک کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے اہل علم و دانش ، میڈیا، سماج اور خصوصاً نو جوان نسل کے لیے مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے ہم قدم ہونے، سیکھنے، سکھانے اور تہذیب وثقافت میں نئی جہتیں اور معیار وضع کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے آرٹس کونسل میں منعقد 16 ویں عالمی اردو کا نفرنس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں متعلقہ سرکاری حکام سمیت آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ، اراکین گورننگ باڈی اور تشریف فرما دانشور، ادیب، صحافی اور شریک تمام مندوبین نے شرکت کی۔ اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں 16 ویں عالمی اردو کا نفرنس کے موقع پر آپ اہل علم و ادب کے درمیان موجود ہوں اور آج احمد شاہ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ چمن ادب کی آبیاری خون جگرسے کی جائے تو اس میں کھلنے والے گل بوٹے سدا بہار ہوتے ہیں۔انھوں نے کہاکہ سب سے پہلے میں احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں کو اس اہم اور پوری دنیا میں مقبول ادبی میلے کے کامیاب انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ بلا شبہ علم و ادب اور فن و ثقافت سے ان کی والہانہ اور دیوانہ وار محبت اور شب وروز محنت ہے کہ اپنےاعلیٰ ترین معیار کی بدولت اس کی دھوم ساری دنیا میں مچی ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ علوم و فنون انسان کا خاصہ ہیں۔ قدرت نے انسان کو سوچنے والا دماغ ، احساسات و جذبات والا دل،تخلیق کی صلاحیت، ابلاغ والی زبان ، اخلاقی حس اور جمالیاتی ذوق عطا کیے ہیں، ان نعمتوں کی بدولت انسان دوسرے جانداروں سے الگ اور برتر ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اعلیٰ ادب کا مطالعہ ہمیشہ سے افراد اور اقوام کو باشعور ، متوازن، شائستہ، انسان دوست، ہمدرد اور نفیس بنانے کا ذریعہ رہا ہے ۔ جسٹس باقر نے کہا کہ ادب میں سماج کو بدل ڈالنے کی وہ ان دیکھی قوت موجود ہے جس کا مشاہدہ بر صغیر پاک و ہند کے لوگوں نے بیسویں صدی کے پہلے نصف میں ہی کر لیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ادب و ثقافت کے ذریعے افراد اور اقوام کی اصلاح اور فلاح کے لیے بڑا مفید کردار ادا کیا جا تا رہا ہے، جن اقوام نے اس پر استقامت دکھائی آج وہ تاریخ میں اپنے منفرد مقام کی بدولت تہذیب یافتہ اقوام کہلاتی ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ ادب و تہذیب اور ثقافت کے اس پرچار میں جن افراد نے اپنا کردار ادا کیا وہ امر ہو گئے، ان کی علمی وتخلیقی صلاحیتیں ہماری مجموعی مثبت سماجی تبدیلیوں کا باعث بنی جس کی وجہ سے وہ تاریخ کے صفحات پر زندہ و جاوید ہیں۔ اردو کانفرنس کے منعقد پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ سولہویں عالمی اردو کا نفرنس ادب کے ان میناروں کے ہی نام منسوب ہے، مشاہیر ادب کو باوقار انداز میں نہ صرف یاد کیا جائے گا بلکہ ان کی اعلیٰ علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔انھوں نے مزید کہا کہ مجھے خوشی اس بات کی بھی ہے کہ سولہویں عالمی اردو کا نفرنس میں ہمیشہ کی طرح سندھی، پنجابی، بلوچی ، پشتو، سرائیکی اور پاکستان کی تمام زبانوں کی محبت کو سموئے رکھا ہے ۔انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ عالمی اردو کا نفرنس ہماری بلکہ پوری ملک کی ضرورت ہے کیونکہ اس سے اہل علم و دانش ، میڈیا، سماج اور خصوصاً نو جوان نسل کیلئے مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے ہم قدم ہونے، سیکھنے، سکھانے اور تہذیب وثقافت میں نئی جہتیں اور معیار وضع کرنے کا موقع ملتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بہترین سماجی تبدیلیوں کے ذریعے اگر معاشرے کو امن اور فلاح کا گہوارہ بنانا ہے تو ہمیں بھی اپنی علمی، فکری اور تخلیقی استعداد کے مطابق اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا، ہم روشن خیال اور امن پسند لوگ ہیں مگر پھر بھی ہم پر کچھ الزامات لگائے جاتے ہیں جن کا جواب دینا بھرحال ضروری ہے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہمیں پوری دنیا میں اپنی ساکھ کو مثبت رکھنا ہے۔ ہم ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کے ذریعے دنیا کو بتا سکتے ہیں کہ ہمارے بارے میں جیسا تم سوچتے ہو ہم ویسے نہیں ہیں، اہم پرامن اور محبت کرنے والے ہیں ۔ ہماری ثقافت ، تہذیب اور ادبی روایات مہذب قوم کی آئینہ دار ہیں۔ ہمارا ادب ہماری بہترین اقدار کا ثبوت ہے۔جسٹس باقر نے کہا کہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی احمد شاہ کی قیادت میں علم وادب اور فن کی آبیاری کیلئے بھر پور کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے ذریعے یہ شہر شہر بلکہ ملکوں ملکوں جا کر فن و ثقافت کی نہ صرف خدمت کر رہے ہیں بلکہ پاکستان کا روشن خیال چہرا دنیا کے سامنے لا رہے ہیں اور شائقین ادب وفن ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتے نظر آرہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کراچی آرٹس کونسل کے یوتھ فیسٹیولز، تھیٹر فیسٹیولز ، میوزک فیسٹیولز اور دیگر ادبی و ثقافتی تقریبات و میلے اپنی مثال آپ ہیں، اس سے ہمارے نو جوانوں کو خاص طور پر فائدہ ہوا۔ نوجوان مثبت مشاغل و سرگرمیوں میں حصہ لے کر غلط اور منفی سرگرمیوں سے دور رہے۔خطاب کے آخر میں انھوں نے تقریب کے شرکاء سے مخاطب ہوکر کہا کہ ہم سب کو اپنے وطن کی اعلیٰ شناخت کو مقدم رکھنا ہے اور اس کیلئے ہمارے قلم ہی ہمارا ہتھیار ہیں۔