اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) چیئرپرسن قومی کمیشن برائے وقار نسواں (این سی ایس ڈبلیو) محترمہ نیلوفر بختیار نے اسلام آباد میں آج بحیثیت کلیدی مقرر مسیحی شخصی قوانین پر آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) سے خطاب کیا۔ کانفرنس کو سول سوسائٹی کی تنظیموں اور اقلیتی حقوق کے کارکنوں کے ایک تیرہ رکنی اتحاد نے منعقد کیا۔ کانفرنس میں مختلف قومی سیاسی جماعتوں، اقلیتی برادری کے رہنمائوں، پارلیمنٹیرینز، وکلاء، پادریوں کے رہنمائوں، صحافیوں، اور انسانی حقوق کے گروپوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کا بنیادی مقصد وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دینا تھا کہ وہ پاکستان میں مسیحی برادری کے لئے ذاتی و شخصی قوانین کی منظوری اور اس پر عمل درآمد میں تیزی لائیں جو کئی سال سے التوا کا شکار ہیں۔کانفرنس میں مسیحی طلاق ایکٹ 1869 اور کرسچن میرج ایکٹ 1872 جو کہ فرسودہ ہیں کو اپ ڈیٹ اور اصلاح کرنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا گیا کیونکہ یہ پاکستان میں مسیحی برادری کی موجودہ ضروریات ، حقائق اور امنگوں کی عکاسی نہیں کرتے۔کانفرنس میں پاکستان میں عیسائیوں کے لیے شادی، طلاق، تحویل، دیکھ بھال، وراثت، اور گود لینےکے معاملات کا احاطہ کرنے والے ایک جامع مسیحی خاندانی قانون کو بھی متعارف کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔معاشرے میں مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے مقررین اور افراد نے اجتماعی طور پر سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ بغیر کسی مزید تاخیر کے مسیحی ذاتی قوانین کو اپ ڈیٹ، پاس اور نافذ کریں، کیونکہ حقوق کا تحفظ اور پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے لئے انتہائی ضروری ہے ۔ اپنی تقریر میں چیئرپرسن محترمہ نیلوفر بختیار نے اقلیتی برادریوں کے لئے قوانین کی تجدید اور خواتین اور معاشرے کے دیگر کمزور طبقات کی حفاظت کے لئے ان پر عملدرآمد پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ریاست کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دو صدیوں پرانے فرسودہ مسیحی خاندانی قوانین کو اپ ڈیٹ کریں اور ان میں موجود خرابیوں اور کمیوں کاجائزہ لیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی طبقہ اپنے آئینی حقوق سے محروم نہ ہو۔ انہوں نے اپنے قانونی حقوق کے حصول میں مسیحی برادری کے لئے اپنے کمیشن کی جانب سے اپنی مکمل حمایت اور مدد کا یقین بھی دلایا۔ مذید برآں اقلیتی برادریوں اور سیاسی جماعتوں کے مابین دوری کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ موجودہ قانون نے عیسائی لڑکیوں کو 13 سال اور لڑکوں کو 16 سال کی عمر میں شادی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیار کے سراسر منافی ہے اور کم عمری کی شادی کے زمرے میں آتی ہے جو نہ صرف کئی نسلوں کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کررہی ہے بلکہ اس کے سنگین مالی اور معاشی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔