اسلام آباد (نمائندہ خصوصی ) افغان طالبان کی حکومت نے پاکستان سے کہا ہے وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے نمٹنے کیلیے متبادل طریقے تجویز کرے کیونکہ کابل نے دہشت گرد تنظیم کے خلاف طاقت کے استعمال سے صاف انکار کر دیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی مہینوں سے کشیدگی عروج پر ہے تاہم دونوں ممالک صورتحال سے نمٹنے کیلیے مناسب چینلز کے ذریعے رابطے میں ہیں۔اس پیشرفت سے واقف ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا حالیہ رابطوں کے باوجود تعطل ختم نہیں ہو سکا کیونکہ افغان طالبان اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگرچہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کو بے اثر کرنے کیلئے طاقت کے استعمال پر زور دیا ہے تاہم طالبان حکومت مسئلے سے نمٹنے کیلیے متبادل طریقے پر زور دے رہی ہے۔ (الف) ٹی ٹی پی نے افغانستان میں امریکی زیر قیادت فوجی مہم کے دوران طالبان کے ساتھ مل کر لڑا۔(ب) اس کے خلاف کارروائی کرنا افغان روایت کے خلاف ہے۔ اسی طرح، افغان طالبان کو خدشہ ہے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بھی تعزیری کارروائی اس کے جنگجوﺅں کو داعش دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونے پر مجبور کر دے گی، جسے افغان طالبان دشمن اول سمجھتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے افغان طالبان پاکستان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی یہی وجہ بتا رہے تھے۔ تاہم یہ پالیسی اسلام آباد کو قابل قبول نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے افغان طالبان پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی بحالی چاہتے ہیں۔ اسلام آباد نے گزشتہ سال نومبر میں فوج کی کمان کی تبدیلی کے بعد یہ عمل ترک کر دیا ہے۔اس کے علاوہ مذاکرات کے پچھلے دور بھی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے کیونکہ دہشت گرد حملوں میں صرف اضافہ ہوا۔ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کیلئے واضح پیشگی شرط رکھی ہے، جس میں کہا گیا ہے وہ مکمل طور پر ہتھیار ڈال دے، پاکستان کے آئین اور قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرے اور اس کے بعد ہی اسلام آباد مذاکرات پر غور کر سکتا ہے۔ طالبان حکام نے مبینہ طور پر دعویٰ کیا پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان 90 فیصد معاملات مذاکرات کے ٹوٹنے سے پہلے ہی حل ہو گئے تھے۔ تاہم ٹی ٹی پی وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کی حیثیت کی بحالی اور گروپ کو سرحدی علاقوں میں کام کرنے کی آزادی دینا چاہتی ہے۔ ذرائع نے کہا پاکستان اپنی علاقائی سالمیت اور خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔طالبان کو واضح الفاظ میں کہا گیا پاکستان دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرے گا۔ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 60 فیصد جبکہ خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تشدد میں اضافہ پاکستان کی توقعات کے برعکس تھا۔ کابل حکومت گرنے کے بعد اسلام آباد کو امید تھی طالبان اس کے سکیورٹی خدشات کا خیال رکھیں گے لیکن صورت حال مزید خراب ہو گئی ہے۔