اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)اگرآپ ترکی میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو ’گولڈن پاسپورٹ‘ حاصل کرنا ہوگا۔ ترکی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے آپ کو ایسی پراپرٹی خریدنی ہوتی ہے، جس کی مالیت چار لاکھ ڈالر سے زیادہ ہو اور اضافی اخراجات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ ترکی دیگرممالک کی نسبت سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے اعتبار سے سستا ہے، 2022 تک یہ رقم ڈھائی لاکھ ڈالر تھی بعد میں حکومت نے رقم بڑھادی۔ خیال رہے کہ ترکی میں اس طرح شہریت اختیار کرنے والوں کے حوالے سے مثبت اور منفی دونوں قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے جاننا ہوگا کہ گولڈن پاسپورٹ کیا ہے، اصل میں یہ اصطلاح سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ ’گولڈن ویزا‘ سے مختلف درخواست ہے، جو سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ رہائشی اجازت نامہ بھی فراہم کرتی ہے۔گولڈن پاسپورٹ‘ میں غیرملکی ایک مخصوص رقم کے ساتھ کسی ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جس کے بعد انہیں شرائط پر ملک کی شہریت دی جاتی ہے۔ دنیا میں شہریت حاصل کرنے کا یہ طریقہ کار1980 سے رائج ہے لیکن اب یہ ایک بڑی صنعت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ برطانیہ کی لا ویڈا گولڈن ویزا کمپنی کی مارکیٹنگ مینیجر لیزی ایڈورڈز نے کہا کہ آج کل زیادہ تر سرمایہ کار ’پلان بی‘ کی تلاش میں ہیں۔ دنیا میں غیریقینی صورتحال کے پیش نظر دوسری رہائش گاہ یا پاسپورٹ کی ضرورت ہے۔ ترکی میں 2016 اور 2017 میں غیر ملکیوں کو غیر معمولی طور پر ترک شہریت حاصل کرنے کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ترک شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ 2017 میں شہریت کے لیے جائیداد کی کم از کم قیمت کا تعین 10 لاکھ ڈالر، مقررہ سرمائے کی رقم 20 لاکھ ڈالر یا کم از کم 100 افراد کو ملازمت دینا شامل تھا۔ اس میں 2018 میں متعلقہ ضابطے میں ایک ترمیم کی گئی اور سرمایہ کاری کی رقم کو تبدیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ریئل اسٹیٹ کی کم از کم قیمت ڈھائی لاکھ لاکھ ڈالر اور فکسڈ کیپیٹل انویسٹمنٹ کی ضرورت کو کم کر کے پانچ لاکھ ڈالر کر دیا گیا اور100 کی بجائے50 افراد کو ملازمت فراہم کرنے کی شرط رکھی گئی۔ لوگوں کی دلچسپی بڑھنے پر 2022 میں اس رقم میں دوبارہ اضافہ کیا گیا، اس بار ریئل اسٹیٹ کے حصول کی کم از کم فیس چار لاکھ ڈالر کر دیا گیا۔ ایک سوال آپ سب کے ذہن میں آیا ہوگا کہ اب تک ترکی میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کی تعداد کتنی ہے لیکن اس بارے میں عوامی طور پر دستیاب سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔وزارت داخلہ کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف پاپولیشن اینڈ سٹیزن شپ افیئرز نے ستمبر 2019 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک سال کی مدت میں دو ہزار 611 غیر ملکی سرمایہ کار ترک شہری بنے۔ اعداد و شمار کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں کی تعداد جو کہ ترک شہری ہیں اور ان کے اہلِ خانہ کی تعداد نو ہزار 962 تک پہنچ چکی ہے۔ سابق وزیر برائے داخلہ امور سلیمان سویلو نے 10 مئی 2022 کو کہا کہ 25 ہزار 969 غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ضروری معیار پر پورا اتر کر شہریت حاصل کی ہے۔ ان حاصل ہونے والی آمدنی سات ارب 530 ملین ڈالر ہے۔ بیان کہا کہ 2019 میں مشرق وسطیٰ کے ممالک میں یہ پالیسی خاصی مقبول رہی، عراق (327)، افغانستان (240)، فلسطین (170)، مصر (110)، لیبیا (66)، لبنان (44)، فیڈریشن آف سینٹ کٹس اینڈ نیوس (29)، سعودی عرب (29)، آذربائیجان (28)، پاکستان سے (26) افراد اس پالیسی سے مستفید ہوئے مگر ابھی حال کا تازہ ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ ڈاکٹر الیاس کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لیے مختلف آپشنز موجود ہیں لیکن ریئل اسٹیٹ کی خریداری ترکی میں غیر ملکی سرمائے کو راغب کرنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ ہے۔ لیزی ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ ترکی کو اتنی زیادہ درخواستیں کیوں موصول ہوتی ہیں، اس کا بنیادی مفروضہ ملک کی مشرق وسطیٰ سے قربت کے ساتھ ساتھ اس کی ثقافتی اور مذہبی مماثلت ہے۔ دنیا میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے والوں پر ناقدین تقنید بھی کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ اس سے مجرموں کے لیے جگہ بننے کا خدشہ ہوتا ہے، منی لانڈرنگ میں سہولت ہوتی ہے اور مکانات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔