کراچی (رپورٹ: میاں طارق جاوید)وفاقی اردو یونیورسٹی کا مالی اور انتظامی بحران شدید ہوگیا 20 نومبر کو ایوان صدر میں ہونے والے یونیورسٹی سینٹ اجلاس سے ملازمین اور طلباء نے امیدیں وابسطہ کرلیں۔جبکہ کراچی میں وائس چانسلر روبینہ مشتاق کی ہائیکورٹ سے تعیناتی معطل ہونے بعد ہونے کے بعد رجسٹرار کی سیٹ پرجنگ جاری ہے روبینہ مشتاق کے دور میں تعینات ہونے والے ڈاکٹر محمد صدیق کے خلاف سابق قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین کےدور میں "رجسٹرار”ڈاکٹر مہ جبین کے رٹ ہر عدالت نے "اسیٹس کو” اپنے حق ٹرانسلیشن کروا کر "رجسٹرار آفس” کےتالے تڑواکرکے قبضے پر کرلیا جس یونیورسٹی میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جبکہ نام نہاد میڈیا مافیا نے یونیورسٹی تباہی کرنے والوں کے سرپرست بن گیا تفصیلات کے وفاقی اردو یونیورسٹی میں مالی بے ضابطگییوں اقربا پروری اور کرپشن کےساتھ ساتھ انتظامی بحران شدید ہوگیا یونیورسٹی کے چانسلرو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیر صدارت ایوان صدر میں ہونے والے یونیورسٹی سینٹ کے اجلاس سے اساتذہ اور طلبہ نے امیدیں وابستہ کر لی ہیں جبکہ یونیورسٹی ملازمین نے تخواہوں کی عدم ادائیگی احتجاجی مظاہروں تیاری کر لی زرائع کے مطابقوفاقی اردو یونیورسٹی کی قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو جب سندھ ہائی کورٹ کے ایک مقدمہ میں 21 نومبر 2023ء تک معطل کیا گیا تو سابقہ قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر ماہ جبیں، سابقہ کنٹرولر رضوانہ جبیں، عدنان اختر، ریاض احمد اور آصف رفیق نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ D-5486 دائر کیا جس میں قائم مقام رجسٹرار محمد صدیق کو معطل کرتے ہوئے سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر ماہ جبیں کو دوبارہ رجسٹرار بنانے اور محمد صدیق کی طرف سے کیے گئے تمام اقدامات کو منسوخ کرنے کی استدعا (Prayer)کی گئی۔ عدالت عالیہ نے جب اس مقدمہ میں درخواست کنندگان کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا اور متعلقہ فریقین کو 21 نومبر 2021ء کو دیگر متعلقہ سنے جانے والے مقدمات کے ساتھ ہی سننے کے ضمن میں 21 نومبر تک نوٹسز جاری کرنے کے احکامات صادر کیے تو مقدمہ کرنے والے افراد نے CMA No. 25333 کے تحت ایک ارجنٹ درخواست دائر کی جس میں محض محمد صدیق کو بحیثیت قائم مقام رجسٹرار کام کرنے اور درخواست کنندگان کے خلاف کوئی کارروائی سے روکنے کی استدعا کی گئی۔ اس استدعا پر معزز عدالت کی طرف سے محمد صدیق کے خط کو منسوخ تو نہیں کیا گیا البتہ 21نومبر 2023ء تک Status Quo جاری کردیا گیا۔قانونی ماہرین کے مطابق Status Quo کے تحت جب کوئی فیصلہ آتا ہے تو فیصلہ آنے کی تاریخ سے اگلے حکم نامہ تک صورتحال اسی دن کے مطابق برقرار رہتی ہے۔ اس لحاظ سے عدالت کے فیصلہ کے تحت نا ہی ڈاکٹر ماہ جبیں کو بحال کیا گیا اور نہ ہی محمد صدیق کو رجسٹرار کے عہدہ سے ہٹایا گیا۔ البتہ ڈاکٹر ماہ جبیں، ڈاکٹر رضوانہ جبیں اور ان کے دیگر ساتھیوں نے 14 نومبر کی رات کو محمد صدیق کی غیر موجودگی میں دفتر رجسٹرار کا تالا توڑا اور دفتر پر قابض ہوگئے اور ڈاکٹر ماہ جبیں نے بحیثیت رجسٹرار خطوط جاری کرنے شروع کردیئے۔ ذرائع کے مطابق محمد صدیق نے متعلقہ تھانے میں اس واقعہ کی اطلاع دی جس پر ایس پی گلشن نے فورا نفری یونیورسٹی روانہ کی تاکہ یہ قبضہ خالی کروایا جاسکے۔ عینی شاہدین کے مطابق جب ایس ایچ او نے دفتر رجسٹرار خالی کرنے اور مذاکرات کے لیے ایس پی کے چلنے کا کہا تو قبضہ کرنے والے افراد نے دونوں خواتین کو ڈھال بنالیا اور ڈاکٹر ماہ جبیں اور ڈاکٹر رضوانہ جبیں نے پولیس کے ساتھ انتہائی نازیبا سلوک کیا اور ان پر ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے جس پر پولیس کو مجبوراً وہاں سے ”اپنی عزت بچا کر“ روانہ ہونا پڑا۔موجودہ صورتحال کے مطابق ایف آئی اے کی تحقیقات میں مطلوب افراد کی اب اپنے خلاف شواہد تک رسائی ہوچکی ہے اور خدشہ پایا جاتا ہے کہ اس سے تحقیقات کا عمل متاثر ہوجائے گا۔ دوسری طرف ڈاکٹر ماہ جبیں کی طرف سے ازخود اور اپنی حمایت میں عدالتی فیصلہ کی تشریح کرتے ہوئے حتمی استدعا (Prayer) حاصل کرنے کا تصور کرتے ہوئے جو خطوط جاری کیے گئے ہیں ان پر عدالت میں Contempt کی کارروائی کا آغاز ہوچکا ہے۔ گزشتہ روز ڈاکٹر ماہ جبیں کے ساتھیوں کی جانب سے ان کے اپنے وکیل کا ایک عدالتی فیصلہ کی تشریح پر مبنی خط سوشل میڈیا کی زینت بنا۔ حیرت کی بات ہے کہ مذکورہ وکیل نے بھی اپنے مؤکلین کے مؤقف کی تائید نہیں کی اور ڈاکٹر ماہ جبیں کو رجسٹرار کے عہدہ پر بحالی اور محمد صدیق کے تمام اقدامات کو کالعدم قرار دینے کے سلسلہ میں کوئی تحریر نہیں لکھی۔اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا خصوصی اجلاس ایوان ِ صدر اسلام آباد میں 20 نومبر کو ہونے جارہا ہے جس میں قائم مقام وائس چانسلر کے تقرر / توثیق کے علاوہ سرچ کمیٹی کا معاملہ بھی زیرِ بحث آنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سینیٹ اس قبضہ اور ایف آئی اے کی تحقیقات میں رکاوٹ کھڑی کرنے والے ملزمان کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لاتی ہے۔