کراچی( روپورٹ: میاں طارق جاوید )وفاقی اردو یونیورسٹی میں کرپشن سفارش ، اقرباء پروری، مافیا لوٹ مار نے انتظامی و مالیاتی طور پر تاریخ کے بدترین دور میں داخل ہو گئی ہے یونیورسٹی ایک ماہ سے قائم مقام وائس چانسلر سے جبکہ ملازمین اکتوبر کے ماہ کی تنخواہوں، پنشن اور ہاؤس سیلنگ الاؤنس سے محروم ہیںملازمین اکتوبر کے ماہ کی تنخواہوں، پنشن اور ہاؤس سیلنگ الاؤنس سے محروم ہیں ڈاکٹرالطاف حسین کے یونیورسٹی مستقل وائس چانسلر سے بھی محروم ہے آئندہ چند ورز ایوان صدر میں میں یونیورسٹی سنیٹ کا صدر عارف علوی کی زیر صدارت یونیورسٹی کے مستقبل کافیصلہ ہو جائےگا تفصیلات کے مطابق سابقہ قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کا ایک سال کا دورانیہ تباہ کن ثابت ہواایک طرف کرپشن اور کک بیکس کا بازارگرم رہا تو دوسری طرف یونیورسٹی کا خزانہ خالی ہوتا رہاجس کی وجہ سے وفاقی اردو یونیورسٹی میں ملازمین اکتوبر کے ماہ کی تنخواہوں، پنشن اور ہاؤس سیلنگ الاؤنس سے محروم ہیں جبکہ جلد ہی ان ادائیگیوں کا کوئی امکان بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ذرائع کے مطابق وفاقئ اردو یونیورسٹی میں قیام سے مافیا کا راج رہا جس کی وجہ کرپشن اقربا پروری اور مالیاتی بے ضابطگیوں کی وجہ سے بحرانوں کا سامنا رہے۔وفاقی اردو یونیورسٹی میں بحران ڈاکٹر ظفر اقبال کے دور میں کرپشن اور لوٹ مار بازار گرم رہا ۔ایچ ای سی اور وزرات تعلیم کی جانب سے ملنے والی گرانٹ کرپشن کی نظر ہو جاتی ہے۔ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سابقہ قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کا دور وفاقی اردو یونیورسٹی کا سیاہ ترین دور ہے اس کی پسِ پشت وجوہات پر نظر دوڑائی جائے تو سابق قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو جب ان سے سینئر 3پروفیسرز کو نظرانداز کرتے ہوئے اکتوبر 2022ء میں قائم مقام وائس چانسلر کا عہدہ سونپا گیا اور انہیں ان کا بنیادی فریضہ یعنی فوری طور پر سرچ کمیٹی کا نوٹی فکیشن کر کے مستقل وائس چانسلر کا تقرر کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے ڈاکٹر محمد صارم اور سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر زرینہ علی کے ساتھ مل کر سرچ کمیٹی کی تشکیل کو تاخیری حربوں سے روکا اور آج تک ایک بھی اجلاس منعقد نا ہوسکا، نتیجتاً ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے اپنے اقتدار کو تو طول دے دیا لیکن یونیورسٹی آج تک مستقل وائس چانسلر سے محروم ہے اور اس کا خمیازہ ہزاروں ملازمین بھگت رہے ہیں۔ جب ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے چارج سنبھالا تو یونیورسٹی کا مالیاتی بحران ابتدائی مراحل پر تھا۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے چارج سنبھالنے کے بعد یونیورسٹی کو مالیاتی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے بلند و بالا دعوے کیے لیکن حقیقتاً انہوں نے ایک سال میں نا صرف اپنے آپ کو مالیاتی طور پر مستحکم کیا بلکہ ان کے آس پاس کے چند مخصوص افراد نے بھی یونیورسٹی کے خزانہ پر خوب ہاتھ صاف کیے۔ اس ایک سال میں ایک طرف یونیورسٹی کے ملازمین کی تنخواہوں، ہاؤس سیلنگ اور میڈیکل الاؤنس پر قدغن لگی تو دوسری طرف ریٹائرڈ ملازمین کو بھی پہلی بار پنشن کے حصول کے لیے احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ یونیورسٹی کے ریکارڈ کو دیکھا جائے تو ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے صرف ایک سال میں سفری اخراجات و الاؤنسز میں 40 لاکھ روپے کا یونیورسٹی کے خزانہ کو ٹیکا لگایا جبکہ دوسری طرف اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے تقرریاں بھی کی جاتی رہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ ان کے قریبی رفقاء آصف رفیق اور عدنان اختر نے بھی خوب اٹھایا اور ایک طرف آصف رفیق ٹریول ایجنٹ سے کمیشن وصول کرتے رہے تو دوسری طرف عدنان اختر پر کبھی یونیورسٹی کا اسکریپ بیچنے اور کبھی پیسے لے کر ترقیاں اور تقرریاں کروانے کی خبریں بھی خوب گردش میں رہیں۔ اس کے علاوہ طلباء کی فیسوں میں اضافے نے طالب علموں کو احتجاج کی راستہ اپنانے پت مجبور کیا ان معاملات کا نوٹس لیتے ہوئے جب وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کو سبکدوش کیا تو ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں۔ اب صورتحال ایسی ہے کہ موجودہ قائم مقام انتظامیہ نے پچھلے ماہ تو ہائر ایجوکیشن کمیشن سے گرانٹ موصول ہونے کی وجہ سے تنخواہیں ادا کردیں لیکن ماہ اکتوبر 2023ء میں خزانہ صاف ہونے کی وجہ سے اب تنخواہیں، پنشن اور ہاؤس سیلنگ کی ادائیگی کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ اردو یونیورسٹی میں ایچ ای سی سے موصول ہونے والی گرانٹ کے علاوہ صرف طلبہ کی فیسوں سے آمدنی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کی بدانتظامی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے طلبہ نے نا صرف فیسوں میں اضافہ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا بلکہ اب تک ان طلبہ نے عدالت میں مقدمہ کرنے کی وجہ سے فیسیں جمع نہیں کروائیں جس کی وجہ سے فیسوں سے وصول ہونے والی آمدنی سے بھی معاملات حل ہونا دشوار نظر آرہا ہے۔وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی سفارشات پر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین، سابقہ رجسٹرار ڈاکٹر مہ جبیں، سابقہ ٹریژرار سید اقبال حسین نقوی، آصف رفیق اور عدنان اختر کے کرپشن و بے قاعدگیوں کے معاملات ایف آئی اے کے سپرد کردیئے ہیں لیکن اس سے یونیورسٹی کا مالیاتی طور پر کوئی فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ذرائع کے مطابق ڈاکٹر محمد ضیاء الدین کے اپنی اور اپنے "رتنوں ” کو بچانے کیلئے پورا زور لگا رہے ہیں ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم کے سیکرٹری اورنگراں وزیر تعلیم سے معاملات بہتر ہو رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ آئندہ چند روز میں زور دھماکے ہو نگے