کراچی /اسلام آباد(این این آئی)مشکل وقت میں قیادت (لیڈر شپ) کا کردار اہم ہوتا ہے، جو مسائل کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے میں لگی رہتی ہے۔ قیادت مخلص ہو تو قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ یہ بات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اور بانی کارپوریٹ پاکستان گروپ و نٹ شیل گروپ محمد اظفر احسن کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ معیشت میں استحکام راتوں رات نہیں آتا۔ اس کے لیے منتخب حکومت کی جانب سے مستحکم اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ایسی حکومت ہو جو عوامی مفاد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے صحیح مہارت کے حامل اہل افراد پر مبنی ہو۔ پاکستان میں بدقسمتی سے عوامی نمائندے مختلف برادریوں کی بنیاد پر منتخب ہوکر اسمبلیوں میںآتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ چارٹر آف اکانومی معیشت کے استحکام کے لیے بہت امید افزا نظریہ لگتا ہے، لیکن یہ ایک ایسے ملک میں چیلنج ہے جہاں مختلف سیاسی جماعتیں بالکل مختلف سیاسی نظریات رکھتی ہیں۔ تاہم معاشی ترقی کے لیے بہترین طریقہ کار ایک ایسا جمہوری سیٹ اپ ہے، جسے ووٹ کے ذریعے بااختیار بنایا جاتا ہے۔ڈاکٹر علوی نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ چند برسوں کے دوران، خاص طور پر عالمی وبا کووڈ19 کے دوران دنیا کی بڑی معیشتوں سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پاکستان میں جاری معاشی بحران جلد ختم ہوجائے گا، جس کی وجہ دنیا میں عالمی سطح پر مہنگائی کے ساتھ ساتھ غیریقینی ملکی صورتحال بھی ہے۔ میں پرامید ہوں کہ پاکستان میں حالات بہتر ہوں گے۔ ہمارا ملک طویل عرصے تک دہشت گردی کا شکار رہا، جس کے باعث غیرملکی سرمایہ کار پاکستان میں انویسٹمنٹ کرنے سے گریزاں رہے۔ اس کے بعد کووڈ 19 آیا اور پاکستان نیاس عالمی وبا کا بھی اچھی طرح مقابلہ کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے تعلیم اور ٹیکنالوجی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اور اس کام کو سرکاری اداروں کے مقابلے پرائیویٹ سیکٹر بہتر طریقے سے آگے بڑھا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے پالیسیوں میں تسلسل اُور ان پر تیزی سے عملدرآمد ہونا چاہیے۔ڈاکٹر علوی نے کہا کہ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ اور قیادت کی توجہ عوام کی تعلیم پر ہونی چاہیے۔ پاکستان میں تعلیم کا بہت بڑا خلا ہے۔ یہ اگلے دس سال میں سب سے بڑا مسئلہ بننے جارہا ہے۔ غیرتعلیم یافتہ افراد کو مناسب ہنر حاصل کرنا چاہیے، اور جو لوگ معمولی تعلیمی پس منظر رکھتے ہیں انہیں بھی اپنے آپ کو ہنرمند بنانا چاہیے۔ صدر نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ملک سے محبت اور معیشت میں اُن کے گراں قدر کردار کی تعریف کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ پاکستانی عوام کو بااختیار بنانے کے لیے تعلیم کے میدان میں آسانیاں پیدا کرکے ان کی مدد کریں۔پاکستانی تارکین وطن زیادہ تر مزدور پیشہ افراد پر مشتمل ہیں اور ان کی بڑی تعداد مشرق وسطیٰ میں آباد ہے۔ لیکن ایک بڑا حصہ،10 فیصد مختلف ممالک میں اچھی زندگی گزار رہا ہے۔ صدر علوی نے کہا کہ یہ لوگ پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میں نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان میں صحت اور تعلیمی اداروں کو اپنائیں، کیوں کہ دنیا کو ذہین لوگوں کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر سائبر دفاع اور سائبر تحفظ میں دنیا کو 80 ملین پرفیشنلز کی ضرورت ہے۔ اس شعبے میں ہر پروفیشنل کو کام ملے گا۔ اس کے ساتھ بہت سے دوسرے شعبے ہیں، جن میں انسانی وسائل کی ضرورت ہے۔جغرافیائی سیاسی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر علوی نے رائے دی کہ پاکستان کو ایک مخصوص بلاک کی طرف جھکاو? سے گریز کرتے ہوئے خودمختاری کے اسمارٹ نقطہ نظر پر عمل کرنا چاہیے۔ مختلف اطراف سے دباﺅ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں قومی خودمختاری (خودداری) پر بھی کوئی سمجھوتا نہیںکرنا چاہیے۔پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی پولرائزیشن اور ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے کردار کے حوالے سے ڈاکٹر علوی نے کہا کہ شاید وہ زیادہ پولرائزڈ لوگوں کو اپنے خیالات تبدیل پر قائل نہیں کرسکتے، لیکن کم پولرائزڈ لوگوںکو قومی مفاد میںمتحد کرسکتے ہیں۔ڈاکٹر عارف علوی نے بتایا کہ کووڈ کے دوران میں نے علمائے کرام کو آن بورڈ رکھنے کی پوری کوشش کی، اور انہوں نے بہت اچھا کام کیا۔ ہم نے پاکستان میں مذہبی برادری کے ساتھ مل کر جو فیصلے کیے، مسلم دنیا نے بعد میں اسی پر عمل کیا، جیسے عالمی وبا کے دوران مساجد کو نماز کے لیے کھلا رکھنا۔ انہوں نے کہا کہ ایوان صدر نے خواتین کے وراثت کے حق کے معاملے پر آواز اٹھائی اور پی ایم ڈیجیٹل اسکلز پروگرام کو بھی نمایاں مدد فراہم کی، جس میں 24 ملین لوگوں نے حصہ لیا، اور ان میں ایک قابل ذکر تعداد اچھی رقم کما کر اپنے خاندانوں کی کفالت کررہی ہے۔پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ڈاکٹر علوی نے کہا کہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے سبب ترقی اور خوشحالی کا پاکستان کا مقدر ہے، تاہم اس کے لیے اداروں کو پائیدار بنیادوں پر مضبوط کرنا پڑے گا۔