راولپنڈی(کورٹ رپورٹر) سینئر وکیل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ جج تعیناتی کے لئے متعلقہ چیف جسٹس سے مشاورت ضروری ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ حکومت جس کو چاہیے 800 ججز میں سے کسی کو چن لے۔منگل کے روز سائفر کیس ٹرائل کیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین کابنیادی نقطہ ہے کہ جج تعیناتی حکومت کااختیارنہیں ہے،جج تعیناتی کیلئے ضروری ہے کہ متعلقہ چیف جسٹس سےمشاورت کی جائے،چیف جسٹس صاحب کی رائے کے مطابق جج مقررکیاجائے،یہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان کے 8سوججزمیں سے حکومت چنے کہ کس کولگاناہے،میری نظرمیں اس بنیادی نقطے کی روشنی میں تمام کارورائی کالعدم ہوسکتی ہے،قانون میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت ٹرائل کی اجازت دےگی،وفاقی حکومت کیاہے؟یہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں بیان کرچکی ہے،سپریم کورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کامطلب وفاقی کابینہ ہے،سپریم کورٹ کے مطابق معاملہ کابینہ کےسامنے آئے اورکابینہ فیصلہ دے،کیاسائفرکا معاملہ کبھی کابینہ کے سامنے گیاکہ کن جج صاحب کوتعینات کرناہے؟سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی مشاورت نہیں کی گئی،یہ تمام معاملات نہیں ہوئے،اس لیے ہماری استدعا ہے کہ تمام کارورائی کوکالعدم قراردیاجائے،سائفر کامعاملہ بندکمرے میں ہورہا ہے،میڈیا کواجازت ہے نہ خاندان کو،کوئی دیکھ نہیں پارہاکہ کس طرح گواہی کی جارہی ہے،کس طرح وزدرخواستوںکومستردکیاجارہاہے،ملزمان اوروکلا کوبنیادی دستاویزات بھی فراہم نہیں کی جارہیں،انہوں نے مزید کہا کہ آئین وقانون تقاضہ کرتے ہیں کہ ٹرائل کھلی عدالت میں ہوتاکہ یہ تمام چیزیں نہ ہوسکیں،سپریم کورٹ کافیصلہ کہتا ہے کہ شکایت کاجومعاملہ ہوگاوہ ایف آئی آرپرنہیں کیاجاسکتا،جج صاحب نے خودکہا کہ ضروری تھاکہ وفاقی حکومت اس کیس میں شکایت کنندہ بنتی،اس کیلئے پھرضروری تھاکہ معاملہ کابینہ میں جاتا،کابینہ اس پرکوئی فیصلہ کرتی،سائفر کا مقدمہ ایف آئی آر کی بنیاد پر قائم ہو ہی نہیں سکتا۔