اسلام آباد (عمر چیمہ) وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سیکریٹری کی جانب سے پی ٹی سی ایل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے جعلی انوائس جمع کراتے ہوئے پانچ ہزار ڈالرز کی ادائیگی کا مطالبہ، ادائیگی کیلئے پراسیس شروع نہ کرنے پر پی ٹی سی ایل گروپ کی سیکریٹری صائمہ اکبر خٹک ملازمت سے فارغ، خاتون نے وفاقی محتسب کے پاس ہراسگی کی شکایت درج کرا دی، پی ٹی سی ایل گروپ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ کمپنی کی جانب سے زیر سماعت معاملات پر فیصلہ آنے تک تبصرہ نہیں کیا جاتا۔ تفصیلات کے مطابق،تنازع اس وقت شروع ہوا جب حسن ناصر جامی نے کمپنی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے پانچ ہزار ڈالرز کا مطالبہ کیا، حالانکہ وہ ڈائریکٹر نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے ایک نجی ایئرلائن کمپنی کی پرواز سے سفر کا بل جمع کرایا جو بعد میں جعلی ثابت ہوا۔ صائمہ اکبر خٹک نے ادائیگی کیلئے کارروائی شروع کرنے سے انکار کر دیا جس کی انہیں قیمت ملازمت سے برخاستگی کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ یہ خاتون پی ٹی سی ایل گروپ کی کمپنی سیکرٹری تھیں جس میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ اور یوفون شامل ہیں۔ دونوں اداروں کے بورڈز 9؍ ڈائریکٹرز پر مشتمل ہیں، ان میں سے پانچ اتصالات انٹرنیشنل پاکستان کی نمائندگی کرتے ہیں (یہ کمپنی پی ٹی سی ایل کے 26 فیصد شیئرز کی مالک ہے اور انتظامیہ سنبھالتی ہے) جبکہ باقی چار ممبران وفاقی حکومت کی طرف سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ وفاقی سیکرٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو پی ٹی سی ایل بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ سیکریٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حیثیت سے حسن ناصر جامی بورڈ کی صدارت کرتے ہیں لیکن بورڈ کے چیئرمین قبل یہ مسئلہ پیدا ہونا شروع ہوا۔ اگر صائمہ کو بورڈ سے منظوری لیکر ملازمت سے فارغ کیا جاتا تو یہ مسئلہ پی ٹی سی ایل کے دائرے میں ہی رہتے ہوئے ہی دب جاتا۔ دیگر فورمز کے ساتھ ساتھ صائمہ نے مقامِ کار پر ہراساں کیے جانے کے حوالے سے وفاقی محتسب کے پاس بھی شکایت درج کرائی ہے۔ اس شکایت کے ذریعے، خاتون نے پی ٹی سی ایل کے معاملات کو بے نقاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کس طرح وہ ایک زہریلے ماحول میں کام کرنے پر مجبور ہوئیں جہاں اعلیٰ انتظامیہ نے کارپوریٹ گورننس کا ذرہّ برابر بھی لحاظ نہیں رکھا۔ حسن ناصر جامی کے علاوہ، صائمہ نے پی ٹی سی ایل کے چیف ایگزیکٹو افسر، ہیومن ریسورس اور لیگل ڈپارٹمنت کے سربراہان، پی ٹی سی ایل اور یوفون کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کیخلاف بھی شکایت کی ہے۔ چیف ایگزیکٹو افسر (حاتم بماترف) کے بارے میں صائمہ نے اُن پر پاکستانی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے، وہ صائمہ سے مطالبہ کرتے کہ بورڈ کے روبرو پیش کردہ چیزوں کو نظر انداز کرکے میٹنگ منٹس میں وہی کچھ لکھیں جو انتظامیہ چاہتی ہے۔حاتم پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ ٹیلی نور کی خریداری کے حوالے سے معاملات پر انہوں نے چیف فنانشل افسر کے ساتھ مل کر بورڈ کو لاعلم رکھا۔ جہاں تک حسن ناصر اور صائمہ کے درمیان کشیدگی کا تعلق ہے، اس کا آغاز دسمبر 2020ء میں اُس وقت ہوا جب حسن ناصر بورڈ کا حصہ نہیں تھے۔ انہیں پی ٹی سی ایل کے رولز کے تحت خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ خصوصی طور پر مدعو کیے گئے افراد کو میٹنگ فیس کی مد میں کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔ پی ٹی سی ایل کے ڈائریکٹر کو پانچ ہزار ڈالرز فی اجلاس ادا کیے جاتے ہیں، حالانکہ پی ٹی سی ایل ایسی کمپنی ہے جس کی مالی حالت اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ حسن ناصر نے میٹنگ فیس کی مد میں پانچ ہزار ڈالرز طلب کیے تاہم اُس وقت کے چیئرمین بورڈ سے مشاورت کے بعد صائمہ نے حسن ناصر کو آگاہ کیا کہ وہ مذکورہ رقم وصول کرنے کے مجاز نہیں۔ محتسب کے پاس درج شکایت کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اس صورتحال پر حسن ناصر نے صائمہ کو ملازمت سے فارغ کرانے کیلئے بدنیتی پر مبنی مہم شروع کی تاہم بورڈ نے صائمہ کو فارغ کرنے سے انکار کر دیا لیکن بورڈ نے حسن ناصر کو پانچ ہزار ڈالرز کی ادائیگی کا راستہ تلاش کیا اور جنوری 2021ء میں ہونے والے ایک اجلاس میں حسن ناصر کو پرانی تاریخوں میں ڈائریکٹر مقرر کر دیا۔ تاہم، حسن ناصر کی بدقسمتی کہ بورڈ کے چیئرمین نے میٹنگ منٹس سے انہیں پانچ ہزار ڈالرز کی پرانی تاریخ میں ادائیگی کا حصہ حذف کرا دیا۔ چیئرمین کا سامنا کرنے کی بجائے انہوں نے بورڈ کی سیکریٹری صائمہ پر الزام عائد کیا اور بورڈ پر دباؤ ڈالا کہ ادائیگی کی جائے یا صائمہ کو ملازمت سے فارغ کیا جائے۔ تاہم، ایسا نہ ہو سکا۔ یہ معاملہ ابھی جاری ہی تھا کہ ایک اور مسئلہ پیدا ہوگیا۔ بورڈ کے ممبران میٹنگ کیلئے دبئی گئے۔ صائمہ نے حسن ناصر کے سوا باقی سب کیلئے فضائی ٹکٹس کا انتظام کیا کیونکہ حسن ناصر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے سفر اور رہائش کا انتظام خود کریں گے۔ واپسی پر انہوں نے نجی ایئرلائن کے بزنس کلاس کا ٹکٹ مبلغ چار لاکھ 6؍ ہزار روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔ تاہم، یہاں بھی وہ جھوٹ بولتے پکڑے گئے کیونکہ جس دن انہوں نے اسلام آباد سے دبئی پرواز کا بل جمع کرایا تھا اس دن مذکورہ ایئرلائن سے دبئی کیلئے کوئی پرواز دستیاب نہیں تھی اور یہی وجہ تھی کہ میٹنگ کیلئے جانے والے دیگر عہدیداروں نے قومی ایئرلائن کے ذریعے سفر کیا تھا۔ جب حسن ناصر سے ثبوت کیلئے مذکورہ ایئرلائن کا بورڈنگ پاس طلب کیا گیا تو وہ فراہم نہ کر پائے اور عذر پیش کیا کہ پاس کھو گیا ہے۔ صائمہ نے پی ٹی سی ایل کے چیف ایگزیکٹو افسر کی ہدایت پر حسن ناصر کو مطلوبہ رقم کی بجائے دو لاکھ روپے کی ادائیگی کی۔ اس دوران، صائمہ رواں سال اگست میں چھٹیوں پر چلی گئیں۔ ان کی غیر موجودگی میں اُس وقت کے چیئرمین نوید شیخ کا تبادلہ ہوگیا اور ان کی جگہ حسن ناصر جامی کو سیکریٹری وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی لگا دیا گیا جس کی رو سے وہ بورڈ کے نئے چیئرمین بن گئے۔ حسن ناصر کی بطور چیئرمین تعیناتی کیلئے 29؍ اگست کو بورڈ کا خصوصی اجلاس منعقد ہوا۔ جب صائمہ نے اُن سے ملاقات کی کوشش کی تو حسن ناصر نے نے انکار کر دیا۔ صائمہ نے پی ٹی سی ایل کے چیف ایگزیکٹو افسر کو اس پوری صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ حالات انہیں متاثر کر رہے ہیں اور اگر کشیدگی اور مخاصمت میں کمی نہ آئی تو وہ ہراسگی کی شکایت درج کرائیں گی۔ سی ای او نے صائمہ کی تشویش کا اعتراف کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ جب تک حسن ناصر کو ان کی فیس باقاعدگی کے ساتھ ملتی رہے گی اس وقت تک ان کا برتاؤ اچھا رہے گا۔ ان کے تحت بورڈ کے پہلے اجلاس میں حسن ناصر کے سامنے ایک قابل اعتراض اقدام ہوا جو خود ایک پورا اسکینڈل ہے۔ کمپنی کے چیف فنانشل افسر (سی ایف او) نے ٹیلی نور کی خریداری کے حوالے سے ایک بزنس ڈیل پیش کی اور قانوناً تقاضے کے برعکس یہ ڈیل انہوں نے میٹنگ سے قبل ڈائریکٹرز کے ساتھ شیئر نہیں کی تھی