کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ)اورنگی ٹاون کے ریٹائرڈ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے خلاف تحقیقات پانچ ماہ میں مکمل نہ ہوسکی اور معمہ بن گئی ہے۔اس بارے میں اورنگی ٹاون کے چیئرمین جمیل ضیاء ڈاہری نے احتجاج کرتے ہوئے میئر کراچی مرتضی وہاب سے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہء کہ وہ اورنگی ٹاون کی زمینوں کی لوٹ مار کرنے والے جرائم پیشہ ور افراد کے خلاف تحقیقات کرائیں۔انہوں نے یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ یہ کیسی تحقیقاتی کمیٹی ہے جس نے میرا بیان ریکارڈ ہی نہیں کیا۔کمیٹی نے نہ مجھے ثبوت پیش کرنے کے لئے موقع دیا، نہ طلب کیا اور نہ ہی تحقیقات سے اگاہ کیا جبکہ میں اس کیس میں اہم گواہ ہوں۔اورنگی کا ریٹائرڈ پروجیکٹ ڈائریکٹر ماسٹر پلان،رفاہی پلاٹس سمیت ہزاروں سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ اور انہیں ٹھکانے لگانے میں شامل ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں میئر کراچی کو بھی خط لکھ چکے ہیں۔ 19جون کو میئر کراچی نے رضوان خان کے خلاف ایک ہفتہ میں تحقیقات رپورٹ پیش کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔ریٹائرڈ رضوان خان کے خلاف میئر کراچی کی تحقیقاتی کمیٹی میں میونسپل کمشنر انچارج ہیں۔کمیٹی نے ریٹائرڈ رضوان خان کے تحریری بیان کی روشنی میں قانون، فنانس اور ہیومین ریسورسز کے افسران کو بھی شامل تفتیش کرنے کی ابتدائی رپورٹ میں سفارش کی تھی، تاہم گذشتہ پانچ پاہ کے دوران رپورٹ پر عملدرآمد نہ ہوسکا کیونکہ اس میں چمک کا عمل دخل تھا۔ اورنگی ٹاون کے سب سے بڑے مالیاتی اسکینڈل کے کردار بے نقاب ہوچکے ہیں جبکہ پروجیکٹ ڈائریکٹر اورنگی کے خلاف بننے والی کمیٹی نے سرکاری زمینوں کے الاٹمنٹ، لیز اور سب لیز کے گھپلوں میں ملوث افسران کی تفصیلات طلب کی تھ۔یہ تحقیقات ٹاون اورنگی کے چیئرمین جمیل ضیاء ڈاہری کے اچانک پروجیکٹ اورنگی میں چھاپے سے سوشل میڈیا میں زیر گشت خبروں پر میئر کراچی مرتضی وباب نے میونسپل کمشنر بلدیہ عظمی کراچی میونسپل کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیتی تشکیل دی تھی جن میں ڈائریکٹر انکوائری اینڈ انسپیکشن ریحانہ پروین،سینئر ڈائریکٹر کچی آبادی ارشاد احمد آرائیں،ڈائریکٹر لینڈ صبا السلام خان اور ڈائریکٹر اسٹیٹ عمران صدیقی شامل ہیں لیکن ٹاون چیئرمین کے چھاپے میں بھگڈر مچ گئی اور فائلیں غائب کر دی گئی تھیں۔ ماضی میں بھیانک جرائم سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی ٹاون میں ہوئی ہے،سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر رضوان خان کے کارندے،پکی اور کچی دونوں آبادیوں میں ہونے والے جرائم میں شامل ہیں۔قومی احتساب بیورو کو ملنے والی کاغذات میں یونین کونسل نمبر 18 کے محمد نگر اورنگی تاون میں ST-12,ST-13,ST-14,ST-3,ST-13/11E کے جعلی کاغذات پر چائنا کٹنگ کردی گئی ہے۔ ان پلاٹوں کو 2009 میں ایک بڑے آپریشن کے بعد خالی کرائے گے تھے ان کے درمیان خالی۔جگہوں(گلیوں) کو بھی آلاٹ اور لیز کردی گئی ہے۔سیکٹر 10 میں واقع لاہوری گلی سے متصل 36 فٹ غائب کرکے تجارٹی بنیاد پر 40 دکانیں بنا دی گئی ہیں،یہ سڑک اور گلی 1972ء کے KDA کے نقشہ میں موجود تھیں۔اورنگی ٹاون پلاٹ نمبر ایس ٹی ون، سیکٹر 11-H اور ST-14 to ST-34، کے رفاہی پلاٹس کو تجارٹی بنیادوں پر فروخت کردی گئی ہے۔سابق ڈائریکٹر رضوان خان کے کارندے اورنگی تاون سیکٹر 11 1/2غازی آباد شیٹ 7 نزد بسمہ اللہ چوک مارکیٹ نیو قطر انڈر کنسٹرکشن ہاسپٹل کے نام پر سرکاری زمین کی فروخت جاری ہے۔ گلشن بہار سیکٹر 14,15,16 سیکٹر ساڑھے گیارہ اقبال مارکیٹ، سیکٹر گیارہ ای، اورنگی ٹاون نمبر 1،قذافی چوک، اورنگی سیکٹر 6/7 بنارس ٹاون، گلشن ضیاء مومن آباد، مجاہد آباد، فرئٹیئر کالونی،بنارس چھ، سیکٹر ای اور نائن آئی، اورنگی سیکڑ سیون کے نالے پر موجود سرکاری اور نجی پلاٹس کو جعلی کاغذات پر الاٹمنٹ اور لیز کرکے چائنا کٹنگ کی گئی ہے۔ قومی احتساب بیورو کراچی نے اورنگی کے رفاہی،فلاحی مختص سرکاری پلاٹس کو غیر قانونی الاٹمنٹ،لیز اور سب لیز کے ساتھ ٹرانسفر کرنے پر اربوں روپے مالیت کے 49 پلاٹس پر مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ریٹائرڈ پروجیکٹ ڈائریکٹر رضوان خان، عقیل احمد(کچی آبادی)، منان قائم خانی(غیر سرکاری ملازم) سمیت ایک درجن سے زائد ملازمین کو شامل تفتش کرنے کی تصدیق کی گئی ہے۔ نیب کراچی کا مقدمہ نمبرNABK2017060994484/IW-I/CO-A/NAB Karachi/2020/2017 بتاریخ 6 اکتوبر 2023ء میں میونسپل کمشنر کراچی کے ذریعے پروجیکٹ ڈائریکٹر سے 49 رفاہی پلاٹوں پر الاٹمنٹ، لیز،سب لیز اور ٹرانسفر ریکارڈز سمیت تمام دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ ہونے والے پروجیکٹ ڈائریکٹر کا ایک مہرہ رانا گلزار(جو لینڈ مافیا کا بہت بڑا کارندہ ہے)پکڑا گیا ہے۔30 کروڑ روپے مالیت کی زمین الاٹمنٹ کے ساتھ لیز اور سب لیز کی منسوخی اور اس خاندان کے نام دو ارب روپے مالیت کی زمین کا جعلی الاٹمنٹ، جعلی لیز وسب لیز کے ذریعے قبضہ کرنے کاریکارڈ بھی نیب کو مل گیا ہے۔ایسے کئی مہروں کا اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمین جعلی کاغذات پر الاٹمنٹ، جعلی لیز و سب لیز کے ساتھ مختلف ناموں پر ٹرانسفر کی تصدیق پروجیکٹ آفس نے کردی ہے جبکہ نیب کراچی نے ون ڈی بس اسٹاپ کا ریزور لینڈ کو دھوکہ، فراڈ، جعلسازی سے الاٹ کرنے، دس نمبر پر کچی مارکیٹ کی غیر قانونی تعمیرات، الاٹمنٹ، جعلی لیز کرنے،پانچ نمبر اورنگی کے رفاہی پلاٹ کو جعلسازی سے الاٹمنٹ، لیز و سب لیز کرانے والے 14مختلف پلاٹس کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ نیب کی ایک ٹیم تمام پلاٹس اور اس کے ریکارڈ کی چھان بین پہلے ہی کرچکی ہے۔رضوان خان کے خلاف اینٹی کرپشن پولیس نے 86 زیر التو کیس کی تحقیقات بھی کر رہی ہے جو اب اخری مراحل میں ہیں۔ 12 عدالتوں نے پہلے ہی ان کے خلاف عدالت کو گمراہ کرنے پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کررکھے ہیں۔پروجیکٹ ڈائریکٹر کے ذرائع نے تصدیق کرتے ہوئے رضوان خان کے مبینہ فرنٹ مین اور مہرہ رانا گلزار کے 400/400 گز کے پلاٹ نمبر 3760/3761/3766/3767، سیکٹر ساڑھے گیارہ گلشن ضیاء اورنگی کے 12کروڑ روپے مالیت کے پلاٹس دھوکہ دہی سے اپنے نام کرنے کی تصدیق کردی گئی ہے۔رانا گلزار نے پانچ کروڑ روپے مالیت کے دو تجارتی پلاٹس بھی(پلاٹ نمبر SA-76 پلاٹ نمبر SA-77 سیکٹر 10-1اورنگی ٹاون)اپنے نام کراتے ہوئے پکڑے گئے تھے جن پر رضوان خان، راؤ عمران، ایس ایم جاوید کے دستخط موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ارب روپے مالیت کے 21 دیگر پلاٹ کو جعلی کاغذات کے ذریعے الاٹ کرنے کے کھیل میں رانا گلزار کے ملوث ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔دس نمبر پر کچی مارکیٹ میں 267 دکانیں تعمیرات کرنے اور ان کے اربوں روپے رانا گلزار نے رضوان خان کے ساتھ مل کر فروخت کرکے وصول کیئے تھے جبکہ پلاٹ نمبر ST-10 سیکٹر 7-A اورنگی ٹاون کی حیثیت تبدیل کرکے تجارتی بنیادوں پر الاٹ کر دیا گیا تھا۔اسی طرح پلاٹ نمبر ST-5 سیکٹر 2-A اورنگی ٹاون کے عبدالستار کی الاٹمنٹ اور لیز منسوخ کرنے اور 14لاکھ روپے چالان ضبط سرکار،پلاٹ نمبر ST-10 سیکٹر 7-A اورنگی ٹاون کے الاٹمنٹ منسوخ اور چالان کی رقم چار لاکھ 15ہزار روپے ضبط سرکار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ پلاٹ نمبر 110 اسٹریٹ2 سیکٹر ساڑھے گیارہ گلشن ضیاء اورنگی، ورکشاپ کا مختص پلاٹ میں 1000 گز کے دو پلاٹ،1200گز کا کمرشل پلاٹس جعلی کاغذات پر الاٹ کردیا گیا ہے۔رضا عباس رضوی، مسرت علی اور محمد وسیم پر مشتمل کمیٹی نے تمام پروجیکٹ ڈائریکٹر کے پلاٹ کو جعلی،دھوکہ دہی اور فراڈ قرار دیتے ہوئے ان الاٹمنٹ کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان میں ملوث رضوان خان سمیت دیگر افسران کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی سفارش کی گئی ہے۔