کراچی(خصوصی رپورٹ- اسلم شاہ)ملک کا سب سے بڑا بلدیاتی ادارہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (KMC)کو اپنی جیبیں بھرنے کیلیئے کمزور ترین ادارہ بنا دیا گیا۔لولا لنگڑا بلدیاتی نظام چلانے والا اندھے، بہرے منتظم کی وجہ سے لاوارث شہر بن گیا جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مرحوم صدر پرویز مشرف کے دور میں سٹی ڈسٹرکٹ گورٹمنٹ کراچی(KMC)کے تمام مالی و انتظامی اختیارات مع کراچی کے بلدیاتی و شہری ادارے ناظم کے ماتحت ہوتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی مسلسل گذشتہ 15سالہ حکومت کے دوران مالی و انتظامی اختیارات پر مراحلہ وار قبضہ کرلیا گیا،اب میئر کراچی کے اختیارات صرف 30 فیصد علاقے تک رہ گئے ہیں۔اس ضمن میں مالی و انتظامی اختیارات سلب ہونے سے پاکستان کی سب سے بڑی میٹرو پولیٹن کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وہ عملی طور پر مفلوج ہو گئی ہے۔ اب اس کے اختیارات سکڑ کر صرف بھنگیوں تک محدود ہو گئے ہیں۔پیپلزپارٹی نے اپنی 15 سالہ مسلسل حکومت میں بلدیاتی اداروں پر حملوں کی اپنی سابقہ روایت برقرار رکھتے ہوئے میٹروپولیٹن کراچی کے اختیارات کی بندر بانٹ کو اپنی ہوس زر کی نظر کر دیا۔ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جمہوریت کے دوران بلدیاتی اداروں کے مالی و انتظامی کنٹرول پر کاری ضرب لگائی گئی کیونکہ یہ کمائی کے بہت بڑے ذریعے ہیں جسے زر کے پجاری کسی صورت میں چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی،دنیا کا پہلا انوکھا یتیم شہر ہے جہاں بیک وقت 21 لینڈ کنٹرول، 23 ادارے میونسپل سروسز کا کام کررہے ہیں۔ ان اداروں کا نہ ایک دوسرے سے مشاورات ہے نہ ہی اداروں کے درمیان باہمی تعاون کی فضاء ہے کیونکہ ہر ادارہ مال بنانے اور اپنی زیادہ سے زیادہ جیبیں بھرنے پر لگے ہوئے ہیں اور اس معاملے میں ان کے درمیان سخت مقابلے بازی جاری ہے۔ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کا منتخب میئر کا دائر اختیار شہر کے صرف 32 فیصد علاقوں تک محدود ہے اور اسی پر اس کا کنڑول ہے،جبکہ جواب دہی پورے شہر کراچی کی 100 فیصد لی جاتی ہے۔ چھ کنٹونمنٹ بورڈز، دو ڈیفنس اتھارٹیز، ،پانچ عکسری لینڈ، سول ایوی ایشن اتھارٹی،کراچی پورٹ ٹرسٹ اتھارٹی، پورٹ قاسم اتھارٹی، پاکستان ریلوے،پاکستان اسٹیل ملز،پاکستان ایکسپورٹ پروسیسنگ زون, جنگلات، پر میئر کراچی کا کوئی اختیار ہے نہ عمل دخل،جبکہ شہر کے تین شہری ادارے کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی ، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی، لیاری ڈویلپمنٹ اتھارٹی پر نہ کنٹرول ہے نہ مشاورت شامل کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شہری ادارہ کراچی ماسڑ پلان،بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، سندھ کچی آبادی،گوٹھ آباد اسکیم، بورڈ آف ریونیو، ٹرانسپورٹ ڈپارٹمنٹ کا اختیار بھی میئر کراچی سے بہت دور ہے۔حال ہی میں پیپلز پارٹی نے تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کے اختیارات بھی میئر کراچی سے چھین لیئے ہیں۔فوڈ ڈیپارٹمنٹ بھی چھین لیا گیا کراچی کا کچرا اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا کام وزیراعلی سندھ کے نگرانی میں دیدیا گیا ہے۔اب صرف ایک ادارہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں میئر کراچی کو چیئرمین بنایا گیا ہے،جبکہ کے ایم سی کے کئی مالیاتی اور انتظامی اختیارات چھین لئے گئے ہیں۔ترقیاتی کاموں کو بھی میئر کے بجائے صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں دے دیا گیا ہے۔ بلدیاتی ادارے میں KMC کے ساتھ 25 ٹاونز، 264 یونین کونسلوں کے ساتھ کمشنر، 7 ڈپٹی کمشنرز، 28 اسٹنٹ کمشنرز،32 مختیار کار،پٹواری اور تپہ داری کا نظام بھی کراچی میں الگ نظام کی صورت میں موجود ہے۔کراچی شہر میں بلدیاتی اداروں کا لولا لنگڑا نظام چل رہا ہے جس میں مالی اور انتظامی اختیارت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔صوبائی حکومت نے تمام اختیارات پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 140-اے مقامی حکومتوں کو مکمل اختیارات دیتا ہے جس میں وفاقی فنانشل کمیشن کی طرز پر صوبائی فنانشل کمیشن بھی شامل ہے۔سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں سٹی ڈسٹرکٹ گورٹمنٹ کراچی(KMC) کو مکمل طور پر مالی و انتظامی اختیارات حاصل تھے۔کراچی کے بلدیاتی و تمام شہری ادارے ناظم کے ماتحت تھے۔پیپلز پارٹی نے گذشتہ 15 سالوں کے دوران تمام مالی و انتظامی اختیارات پر مراحلہ وار قبضہ کر لیا ہے بلکہ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ ان اختیارات پر ڈاکا ڈآلا گیا۔اب میئر کے اختیارات صرف 30 فیصد رہ گئے ہیں۔یہ بات اہم ہے کہ پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں ہمیشہ بلدیاتی اداروں کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اب تو اختیارات پر کھلے عام ڈاکا ڈاالا گیا ہے۔گذشتہ دس سال سے زیادہ عرصہ سے پنجاب ،کے پی کے بلوچستان اور سب سے زیادہ سندھ کی صوبائی حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات سلب کئے ہیں۔کے پی کے جو مقامی حکومتوں کو اختیارات دینے کے حوالے سے پہلے نمبر پر تھا وہاں بھی موجودہ غیر منتخب صوبائی حکومت نے وعدہ خلافی کر کے ان کو اور کمزور کیا ہے جبکہ قانونی طور پر یہ حکومت صرف 90 دن کیلیئے آئی تھی اور اس کا مقصد صرف الیکشن کرانا تھا۔