کراچی (رپورٹ۔اسلم شاہ)کراچی کی 34 فرموں نے زیرزمین(سب سوئل واٹر) 156 زیر زمین بورنگ کا اعتراف کرکے 955 بورنگ کو غیر قانونی تسلیم کر لیا ہے جس میں لیاری سے پانی چوری کرنے تصدیق اور اربوں روپے کا گھناونا کاروبار عروج پر ہےنیب، اینٹی کرپشن اور دیگر متعلقہ تحقیقاتی اداروں نے چمک کی وجہ سے مکمل خاموشی اختیار کیا ہوا ہے جبکہ واٹر بورڈ کے مقابلہ میں پانی کی (سب سوئل واٹر) بڑی کمپنیاں بن گئی ہیںجن سے اربوں روپے ٹیکس وصولی کیا جارہا ہے۔سائٹ میں پانی کا بڑا نیٹ ورک کام کررہا ہے،جہاں باقاعدہ ماہانہ بلنگ وصول کیاجارہاہے جو اب شہر میں مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں اور ان کی الگ الگ ریاستیں بن گئی ہیں۔ ان کے آگے نہ قانون ہے نہ ٹیکس کا نظام اور نہ ہی کسی مجاز ادارے سے NOC لیاگیا ہے۔ ہائیڈرنٹس کے بعد اربوں روپے مالیت کے پانی کا یہ نیا گھناؤنا کاروبار شہر میں عروج پر ہے۔ ہائیڈرنٹس اور اینٹی تھیفٹ سیل نے زیر زمین پانی نکالنے کا غیر قانونی کاروبار کی کے اجازت نامے جاری کر کے اس نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا ہے اور اس حوالے سے ادارے کے نہ ایگزیکٹیو انجینئر،نہ سپریٹنڈنٹ انجینئر،نہ چیف انجینئر سمیت ادارے کے تمام اہم افسران سے نہ مشاورات اور نہ جوابدہ ہیں۔مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اینٹی تھیفٹ سیل نے کراچی کی 34 مختلف فرموں کو زیر زمین پانی نکالنے کا اجازت نامہ جاری کیا ہے ان کمپنیوں نے شہر کے مختلف مقامات پر 156بورنگ کا اعتراف کیا ہے۔ ان کے مطابق مجموعی طور پر پانچ لاکھ روپے ٹیکس جمع کر رہے ہیں جبکہ آمدنی دو ارب روپے سے سے زائد کی تصدیق کی جارہی ہے۔ اس آمدنی کی 50 فیصد رقم رشوت، کمیشن، کک بیک کے ذریعے تقسیم کی جارہی ہےمیں پانی سپلائی کرنے کا دعوی سامنے آچکا ہے۔ کورنگی، فیڈریل بی ایریا، نارتھ کراچی، لانڈھی، بن قاسم کے ساتھ سپرہائی وے صنعتی علاقوں میں دیگر فرمیں بھی زیر زمین پانی کے گھناؤنے کاروبار کی اس دوڑ میں شامل ہوگئی ہیں۔سے بڑا نیٹ ورک شکیل مہر نامی فرم نے ساڑھے چار سو سے زائد بورنگ لگا کر سائٹ لمیٹڈ کے صنعتی زون میں پانی سپلائی کرنے کا دعوی سامنے آچکا ہے۔ کورنگی، فیڈریل بی ایریا، نارتھ کراچی، لانڈھی، بن قاسم کے ساتھ سپرہائی وے صنعتی علاقوں میں دیگر فرمیں بھی زیر زمین پانی کے گھناؤنے کاروبار کی اس دوڑ میں شامل ہوگئی ہیںدوسری جانب شہر میں زیر زمین پانی نکالنے سے خلا پیدا کیا جارہا ہے جس سے زلزلے اور قدرتی آفات میں ناقابل تلافی نقصان کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی اور انسانی جانوں کیلئے بھی خطرہ پیدا ہو گیا ہے،جس سے بڑے طوفان کے ساتھ تباہی کے خطرات بڑھ گئے ہیںاہم نوعیت اور حساس معاملہ ہے۔اس کا تجریہ بہت محتاط انداز میں کرنا ضروری ہے لہذا گنجان آباد شہری علاقوں میں پانی زمین سے نکالنے کا فیصلہ سائنسی بنیاد کے اعداد وشمار پر مبنی ہونا چاہیے کہ ایک مخصوص مدت میں کتنا ریجارج ممکن ہے۔ بہت زیادہ بورنگ سے مختلف علاقوں میں فلک بوس عمارتوں کا اچانک زمین بوس ہونے کا ماہرین خدشات کا اظہار کرچکے ہیںسپریم کورٹ کی ہدایت پر سب سوئل واٹر کے کاروبار کی محدود اجازت دی گئی تھی۔اس کی قانون سازی بھی کی گئی تھی اور بڑی مشاورات کے بعد اس کے قواعد و ضوابط بھی بنائے گے ہیں۔پانی فراہم کرنے والی ایک کمپنی گذشتہ 17 سال سے بن قاسم میں بورنگ کے ذریعے کروڑوں کا کاروبار کررہی ہے۔وہ نہ ٹیکس دیتی ہے، نہ اس کے پاس کسی ادارے سے اجازت نامہ ہے۔شہر میں زیر زمین پانی نکالنے کے اس گھناؤنے دھندے کی وجہ سے شہریوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ایکٹ میں زیر زمین پانی نکالنے کی مجاز اتھارٹی سیکریٹری صنعت سندھ ہیں جنہیں اس کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ بلدیاتی اداروں، ماحولیات اور دیگر 11 اداروں کے علاوہ صنعتی زون کے سربراہ کی اجازت نامہ درکار ہے۔ اس بارے میں پہلے کسی ادارے سے علاقے کی زیر زمین پانی کی سطح کا مکمل سروے اور ڈیٹا جمع کیا گیا ہو۔ پانی کی تجزیاتی رپورٹ اور پانی کی فراہمی کا حجم اور اعداد و شمار کا اجازت نامہ ضروری ہے اس کے ساتھ KWSB کے مینجنگ ڈائریکٹر کو براہ راست درخواست اور اس کا این او سی،ایم ڈی سائٹ کا اجازت نامہ،مجاز اتھارٹی سیکریٹری صنعت کی منظوری حاصل کرنا کا طریقہ کار واضح ہے۔زیر زمین پانی کے کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو کراچی کے مختلف اضلاع میں تین سال کام کا تجربہ ہو۔ سب سوئل واٹر کے لئے KWSB نے اطلاع عام کے تحت سب سیوئل واٹر پر کام کرنے والی کمپنیوں سے پیشکش طلب کی ہو،فرم کو اجازت نامے پر مشتمل لائسنس کی اجراء کرنے پر ایک لاکھ روپے فی مین ہور کرنے، ڈیجٹیل نقشہ جات کے ذریعہ سب سیوئل واٹر کی فراہمی کا تمام علاقوں کی نشاندہی کرنا قواعد و ضوابط میں ضروری ہے،جبکہ انڈر سیکشن 14-A ایکٹ کے تحت لائیسنس جاری کیا جائے گا۔500 فٹ سے دور پانی کی تنصیبات، سائفن، کنڈیوٹ، پمپنگ اسٹیشن، ریز وائر اور لائنوں کے ساتھ رہائشی و تجارتی علاقوں سے دور رکھنے کا حلف نامہ بھی فرم کو دینا ہوگا۔
تمام شرائط کے برخلاف واٹر بورڈ نے بھاری نذرانہ وصول کرکے خاموشی سے 34 کمپنیوں کو اجازت نامہ اور زیر زمین پانی کے کاروبار کی اجازت دے دی ہے۔ سابق انچارج آفیسر اینٹی تھیفٹ راشد صدیقی نے اپنے دستخط سے جاری ہونے والا خط نمبر KWSB/IOATC/estt/2021/392 بتاریخ 2 مارچ 2021ء کو ایس ایچ او رضویہ سوسائٹی پولیس اسٹیشن کو لکھا ہے جس میں عمیر انٹر پرائز اینڈ کمپنی بلڈرز ڈویلپمنٹ کو زیر زمین پانی نکالنے کا اجازت نامہ جاری کیا ہے۔اس کے ساتھ کسی ادارے سے اجازت لی گئی ہے نہ کسی کی اجازت لینے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔اس حوالے سے نہ زمین کا سروے اور نہ ہی پانی کی تجزیاتی رپورٹ حاصل کی گئی ہے صرف اینٹی تھیفٹ سیل کو درخواست دی گئی ہو جہاں سے آپ کو سب سیوئل واٹر نکالنے کا ٹھیکہ دے دیا جائے گا۔دوسری جانب شہر کے مضافاتی علاقوں میں سب سوئل کے نام پر دو سو سے زائد ہائیڈرنٹس بھی چل رہے ہیں۔ بعض فرموں نے سب سوئل کے نام پر واٹر بورڈ کی لائنوں سے بڑے پیمانے پر پانی کی چوری بھی کی جاری ہے۔حالیہ آپریشن کے دوران زینت ہائنڈرنٹ کے پاس سب سوئل کی اجازت نامہ موجودتھا لیاری ندی پر سب سوئل کی لائن جانچ پڑتال کے دوران پانی کا نظام بہتر ہونے کی تصدیق ادارے کے افسران کررہے ہیں تاہم بڑے پیمانے پر پانی کا ایک مقدمہ درج نہیں کیا نہ کسی کی گرفتاری عمل میں آیا ہے اس بارے میں پانی چوری کا آپریشن مشکوک ہوگیا ہے