لاہور (رپورٹ: محمد قیصر چوہان)پاکستان کی معیشت کوسب سے زیادہ نقصان اسمگلنگ پہنچا رہی ہے ۔اسمگلنگ ایک ایسا دھندا ہے جس کے ذریعے غیر قانونی تجارت کی جاتی ہے اور غیرقانونی منافع کمایا جاتا ہے۔ اسمگلنگ کے ذریعے چیزیں امپورٹ بھی ہوتی ہیں اور ایکسپورٹ بھی ہوتی ہیں ،دونوں صورتوں میں قومی خزانے کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا البتہ غیرقانونی دولت کا ارتکاز ہوتا رہتا ہے۔پاکستان کی معیشت کو منشیات اور ڈرگز اسمگلنگ ،ممنوعہ اسلحہ کی اسمگلنگ ،ڈالر کی اسمگلنگ، پٹرولیم مصنوعات اور کھانے پینے کی اشیا کی اسمگلنگ مسلسل نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس اسمگلنگ اور غیرقانونی دھندے کی وجہ سے پاکستان میں بلیک اکانومی کا سائز مسلسل بڑھ رہا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ دستاویزی اور قانونی معیشت سکڑ رہی ہے،بلیک اکانومی کا سائز خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے ملک کا انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑ رہا ہے پاکستان پر غیرملکی قرضوں کا دباﺅ اور حجم بھی غیرمعمولی حد تک بڑھ چکا ہے۔اس وقت ملک کی 80 فیصد تجارت غیر قانونی طریقے سے ہو رہی ہے جس نے پاکستان کی معیشت کو مکمل طور پر برباد کر دیا ہے۔پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ ڈالر افغانستان اسمگل ہو رہا ہے اور افغانستان نے پاکستانی کرنسی پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اسمگل ہونے والی اشیاءمیں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جیسے آٹا، چینی، چاول، گوشت، ادویات، ٹیکسٹائل گارمنٹس وغیرہ شامل ہیں،یعنی صرف خام مال ہی نہیں تیار مال بھی غیر قانونی طریقے سے بھیجا جا رہا ہے۔ اسمگلنگ کی وجہ سے ٹیکس کلیکشن نہیں ہو رہی ہے اور ملکی خزانہ بالکل خالی ہوگیا ہے۔ اس لیے ملکی معیشت ختم ہونے کے دہانے پر کھڑی ہے اور ہمیں ہر وقت قرضوں کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے، ریاست کنگال ہوگئی ہے اس بلیک مارکیٹ کی وجہ سے مزدور کو تنخواہ کم مل رہی ہے اور صنعتی و پیداواری یونٹس بند ہونے سے بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ہمارے ملک کی گندم اور یوریا افغانستان اسمگل ہوتی تھی، اب تقریباً پچھلے دو دہائیوں سے ڈالر سمیت ہر سامان اسمگل ہو رہا ہے۔ ملک کے اہم ترین اداروں کے لوگوں کی سرپرستی میں اسمگلنگ کا دھندہ چل رہا ہے۔
گزشتہ دنوںپاکستانی خفیہ ایجنسی نے اسمگلنگ پرایک رپورٹ وزیراعظم ہاﺅس میں جمع کرا ئی ہے ۔ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں 29سیاستداںاور 90 سرکاری حکام شامل ہیں جبکہ ایرانی بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں 76 ڈیلرز تیل اسمگلنگ میں ملوث ہیںایران سے پاکستان کو سالانہ 2 ارب 81 کروڑ لیٹر سے زیادہ تیل اسمگل ہوتا ہے جس کے باعث پاکستان کو سالانہ 60 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 722 کرنسی ڈیلر حوالہ ہنڈی کے کاروبارمیں ملوث ہیں، سب سے زیادہ 205 ڈیلر پنجاب، خیبرپختونخوا میں 183، سندھ میں 176، بلوچستان میں 104، آزاد کشمیر میں 37 اور اسلام آباد میں 17 ڈیلرز حوالہ ہنڈی کا کاروبار کر رہے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں 995 پمپ ایرانی تیل کی فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کی گاڑیاں بھی ایرانی تیل کی ٹرانسپورٹیشن میں ملوث ہوتی ہیں، ایران سے تیل ایرانی گاڑیوں میں اسمگل ہو کر پاکستان آتا ہے، تیل اسمگل کرنے والی ایرانی گاڑیوں کو زم یاد کہا جاتا ہے۔رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ تیل کی اسمگلنگ سے ہونے والی آمدنی دہشت گرد بھی استعمال کرتے ہیں۔
اسی قسم کی رپورٹیں سابق نگراں وزیراعظم معین قریشی کے دور سے آرہی ہیں۔ جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ڈیڑھ سو اراکین چینی گندم اور سیمنٹ مافیا میں شامل ہیں۔ اس کے بعد جنرل پرویز کے دور میں کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد بجلی چوری میں سرکاری افسروں اور سیاسی رہنماﺅں کے ملوث ہونے کی رپورٹ آئی تھی۔ ان ایوانوں نے ہلچل مچائی تھی لوگ ہفتوں ان کے بارے میں باتیں کرتے رہے اور سب نے دیکھا کہ چینی، گندم، پٹرول، سیمنٹ سمیت ہر مافیا پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگئی۔ اتنی مضبوط ہوگئی کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی پشت پناہی کے باوجود عمران خان کو ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنا پڑے۔ گزشتہ اور اس سے پیوستہ کئی حکومتوں کے ادوار میں ان میں مافیاﺅں نے مختلف بحران پیدا کیے اور یوں کھربوں روپے کمائے اور خود مزے سے رہے۔ ان کا کچھ نہیں بگڑا، رپورٹ جاری کرنے والے بھی کچھ نہ کرسکے یا کچھ نہ کرنا چاہا اور یہ مافیاز بے لگام ہوتی گئیں۔
ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دباو ¿ کے بعد حکومت پاکستان نے تیل کی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاو ن کا حکم دیا کچھ اسمگلروں کا مبینہ طور پر عسکریت پسند گروپوں یا مجرمانہ نیٹ ورکس سے تعلق ہے جو تیل کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والے منافع کو اپنی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ایران اسمگل شدہ تیل کا بنیادی ذریعہ ہے، کیونکہ اس کے پاس تیل کے وافر ذخائر ہیں اور وہ اپنے گھریلو صارفین کو رعایتی قیمتوں کی پیشکش کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایران کو ہر سال تقریباً 4 بلین ڈالر کا نقصان اسمگلنگ سے ہوتا ہے، حکام نے مبینہ طور پر ایران کے ساتھ سرحد پر تیل کی اسمگلنگ پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ایران سے پاکستان کے راستے اسمگل ہونے والے تیل کی ایک اور منزل افغانستان ہے۔ افغانستان میں توانائی کی بہت زیادہ مانگ ہے، خاص طور پر اس کے دیہی علاقوں میں جہاں بجلی یا گیس تک رسائی نہیں ہے۔ اسمگل شدہ تیل جنریٹرز، ہیٹرز اور گاڑیوں کے لیے ایندھن کا سستا اور آسان ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ تاہم، یہ افغان طالبان حکومت کے لیے ایک چیلنج بھی ہے، جو ٹیکس کی آمدنی اور توانائی کے شعبے پر کنٹرول کھو دیتی ہے۔مزید یہ کہ اسمگل شدہ تیل کا کچھ حصہ دیگر مسلح گروہوں کے ہاتھ میں جاتا ہے جو اسے اپنی کارروائیوں کو طاقت دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پٹرول کی اسمگلنگ سے فائدہ اٹھانے والے چند عسکریت پسند گروہوں میں بلوچستان کے کچھ گروہ، کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر ایسے عسکریت پسند گروپ ہیں جن کی سرحدوں سے غیر قانونی آمد و رفت جاری ہیں۔ان گروہوں کے مختلف ایجنڈے اور اہداف ہیں، لیکن ان کا مشترکہ ہدف پاکستانی ریاست ہے۔ ان کے علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ بھی روابط ہیں جو انھیں ہتھیار، تربیت اور فنڈز فراہم کرتے ہیں، وہ اسمگل شدہ تیل کے ہر لیٹر پر ٹیکس یا فیس (بھتہ) وصول کرتے ہیں جو ان کے زیر اثر علاقوں سے گزرتا ہے۔وہ تیل کے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کے ساتھ ساتھ دیگر اسمگلروں سے بھی رقم وصول کرتے ہیں جو منشیات، ہتھیاروں یا انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرتے ہیں۔ مزید برآں ،انھیں بیرونی ممالک سے مدد ملتی ہے جو علاقائی ممالک کو غیر مستحکم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، یہ شبہ بھی ہے کہ ان کے بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسیوں سے روابط ہیں۔یہ عسکریت پسند گروپوں کے لیے لائف لائن فراہم کرتا ہے جو پاکستان اور افغانستان دونوں کے ساتھ ساتھ ان کے علاقائی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی اتھارٹی اور قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہیں۔ اس طرح تیل کی اسمگلنگ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی مسئلہ ہے جو پاکستان اور افغانستان کے استحکام اور ترقی کے ساتھ ساتھ ان کے ایران کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ایران اور افغانستان سے تقریبا 5 لاکھ ٹن سریا اسمگل ہو کر پاکستان کے مختلف حصوں میں آتا ہے، جو مقامی مینوفیکچررز کے لیے شدید جھٹکا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے آنے والا سریا پاکستان کی کل پیداوار کا 10 فیصد ہے، تاہم اس لعنت کی وجہ سے قومی خزانے کو 25 ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ایرانی ڈیزل اور پٹرول کی اسمگلنگ کے علاوہ ایرانی سرف، صابن‘ چپل‘ گریس اور ڈامر سمیت درجنوں اشیاءاور افغان طورخم و چمن بارڈر سے ٹائرز کی اسمگلنگ سے قومی خزانے کو کم از کم 600ارب سالانہ سے زیادہ کا نقصان ہورہا ہے۔
بوچستان اور خیبر پختون خوامیں جگہ جگہ چوکیوں اور گھروں کی چھتوں کے قریب چوکیاں قائم ہیں تو یہ چوکیاں کیا شہریوں کی نگرانی کررہی تھیں۔ پیٹرول اسمگلنگ روکنا کس کا کام تھا۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسے جرائم میں سرکاری افسروں حکام سیاستدانوں اور بڑے بڑے لوگوں کا ہاتھ کیوں ہوتا ہے۔ اس کا واحد سبب یہی ہے کہ ان کے خلاف صحیح معنوں میں کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ کارروائی شروع ہوتی ہے اور پیچیدہ عدالتی نظام کا شکار ہوجاتی ہے سیاسی حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں اور پچھلی کارروائیوں کو روک دیا جاتا ہے۔ سیاسی حکومتیں آتی ہیں تو اپنے کیسز ختم کراتی ہیں۔ اس سارے عمل میں وہ بدعنوان سرکاری افسر، سیاسی لیڈر جو الیکٹ ایبلز کہلاتے ہیں اور تمام جرائم پیشہ گروہ فائدہ اٹھاتے ہیں اب جبکہ پاک فوج کے سربراہ نے ایسے عناصر کا مکمل صفایا کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو یہ کام اب پایہ تکمیل تک پہنچنا چاہئے۔ان کو سب سے پہلے پاک فوج میں موجود کرپٹ عناصر کا خاتمہ کرنے کیلئے اقدامات کرنے چاہیں۔مختصر ہدف کے حصول پر اسے رکنا نہیں چاہیے ایسے اعلانات تو پہلے بھی بہت ہوچکے ہیں لیکن اس مرتبہ قوم کی خواہش ہے کہ ان پر روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ کہ نئے آپریشن کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ ایک مرتبہ ایمانداری سے سب کا احتساب ہوجائے تو پھر کوئی مافیا سر نہ اٹھاسکے گی۔ اس معاملے میں سب سے اہم ذمے دارے عوام کی بھی ہے۔ عوام کی ذمے داری ہے کہ انتخاب کی وقت بدعنوان لوگوں کو مسترد کریں ایماندار جراتمند قیادت کو کامیاب بنائیں۔