کراچی(نمائندہ خصوصی) پاکستان میں خوراک کی فراہمی کی صورتحال بہت ابتر ہے اور ملک 37 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے اور زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان 119 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی خوراک درآمد کررہا ہے۔ ملک میں غذائی اجناس کی مہنگائی 35فیصد کی بلند سطح پر ہے۔ گلوبل ہنگر انڈکس 2023 کے مطابق 125 ملکوں میں پاکستان 102 نمبر پر موجود ہے یہ بات نیشنل فورم فار انوائرنمنٹ اینڈ ہیلتھ کے صدر نعیم قریشی نے عالمی یوم خوراک کے موقع پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ اس دفعہ اس دن کا موضوع پانی زندگی ہے پانی خوراک ہے اور کسی کو پیچھے نہ چھوڑیں۔ اس موضوع کو منتخب کرنے کا مقصد پانی کے ذخائر کی حفاظت، پانی کی فراہمی کے بہتر انتظام اور بچت کے بارے میں شعور بیدار کرنا ہے۔ انہوں نے تمام صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ صنعتی فضلے کے باعث پانی کے زیر زمین ذخائر دریا اور سمندر آلودہ ہو رہے ہیں مگر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں۔ نعیم قریشی نے کہا ماضی میں حکومتوں کے بہتر مالی اور تکنیکی وسائل کے باوجود ٹریٹمنٹ پلانٹس نہیں لگائے جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ 5 سال قبل واٹر کمیشن نے سندھ میں پانی کے بہتر انتظام اور ذخائر کی حفاظت ٹریٹمنٹ پلانٹ کا لائحہ عمل تیار کیا مگر حکومت سندھ نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا اور صوبے کے محکمہ ماحولیات نے غفلت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ روزانہ 600 ملین گیلن فضلہ صنعتوں سے نکل کر سمندر میں جارہا ہے اور صرف 100 ملین گیلن پانی کو ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ ملک میں دستیاب پانی کا 93 فیصد زراعت کو اور 7 فیصد پینے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ نعیم قریشی نے حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اچھی واٹر مینجمنٹ، ڈسٹریبیوشن اور پانی کے ضیاع کو روکا جائے ورنہ اگلے چند سالوں میں پانی کا شدید بحران جنم لے گا۔