کراچی(رپورٹ۔اسلم شاہ) قومی احتساب بیورو(نیب)کراچی نے اورنگی کے رفلاعی مقاصد کیلیئے مختص سرکاری پلاٹس کو غیر قانونی الاٹمنٹ،لیز سب لیز کے ساتھ ٹرانسفر کرنے پر اربوں مالیت کے 49 بڑے پلاٹس کی ہیرا پھیری پر مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔ریٹائرڈ ہونے والے پروجیکٹ ڈائریکٹر رضوان خان، عقیل احمد(کچی آبادی)، منان قائم خانی(غیر سرکاری ملازم) سمیت ایک درجن ملازمین کو شامل تفتیش کرنے کی تصدیق ہو گئی ہے، تمام کرداروں کی گرفتاری کے امکانات ظاہر کیئے جارہے ہیں۔ نیب کراچی کا مقدمہ نمبرNABK2017060994484/IW-I/CO-A/NAB Karachi/2020/2017 بتاریخ 6 اکتوبر 2023ء میں میونسپل کمشنر کراچی کے ذریعے پروجیکٹ ڈائریکٹر سے 49 رفاہی پلاٹوں پر الاٹمنٹ، لیز سب لیز اور ٹرانسفر سمیت تمام ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس جعلسازی،فراڈ اور سرکاری اختیارات کے غلط استعمال کرنے والے تمام افسران کے نام بھی طلب کر لیئے گئے ہیں۔ نیب ذرائع کا تصدیق کرتے ہوئے کہنا ہے کہ اورنگی میں غیر قانونی تعمیرات میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اسٹنٹ ڈائریکٹرز مولوی ریاض، قاسم اور طلحہ بھی تحقیقات میں شامل ہیں۔اس کیس کی تحقیقات کمبائن انویسٹی گیشن ٹیم (CIT)نیب کراچی کررہی ہے۔ نیب کراچی نے پروجیکٹ ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈائریکٹر، اسٹنٹ ڈائریکٹر،انسپکٹر،سرویئر، انجینئرننگ،ٹاون پلانر، چیف انجینئرز، سپریٹنڈنٹ،ایگزیکٹو انجینئرز سمیت تمام افسران کا پرسنل ریکارڈز، قومی شناختی کارڈز کے ساتھ ڈپارٹمنٹ کی کاراوئی ایکشن سمیت دیگر رپورٹ بھی جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ شامل تفتیش افسران پر نیب کراچی نے بیرون ملک جانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ ذرائع کے مطابق نیب کراچی نے کچی آبادی کے پلاٹس کی الاٹمنٹ، ریگویلرایزیشن، لیز سب لیز کے علاوہ سرکاری زمین، رفاہی پلاٹس کے قواعد کے برخلاف ہونے والی تفصیلات مانگ لی ہیں۔پارکس، کھیل کے میدان، تعلیم، صحت کے ساتھ پبلک بلڈنگ کے پلاٹس غیر قانونی الاٹ ہونے والوں کی تفصیلات مانگ لی ہیں۔ون ڈی اسٹاپ کی زمین، اورنگی دس نمبر پر ST-11،ST-13 اور ST-14 سیکٹر 11 اورنگی کی الاٹمنٹ، لیز سب لیز اور سب پلان کے بغیر نقشہ جات کی منظوری میں ملوث افسران کی الگ فہرست طلب کی گئی ہے۔بنیب کراچی نے جرمن و کورین اسکول کی زمین پر 600/600 گز کے کمرچل پلاٹس الاٹ کرنے کے تمام کردار کا مکمل ریکارڈز بھی طلب کیا ہے۔ نیب کراچی نے ST-14/2 سیکٹر 10 میں کچی مارکیٹ کے 267 دکانیں الاٹمنٹ کا ریکارڈ ز بھی مانگ لیا ہے۔نیب کراچی کے ڈپٹی ڈائریکٹر راحیل امیر نے اورنگی کے ماسٹر پلان کے مطابق رفاہی،فلاحی، مختص سرکاری اراضی کی تفصیلات کے ساتھ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے اختیارات کیا ہے، اس کی کہاں کہاں خلاف ورزی کی گئی اس کو بلدیہ عظمی کراچی کے قرارداد نمبر 617 بتارٰیخ 27 جولائی 1996ء پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ ہونے والے پروجیکٹ ڈائریکٹر کا ایک مہرہ (رانا گلزار لینڈ مافیا)پکڑا گیا۔ 30 کروڑ روپے مالیت کی زمین الاٹمنٹ کے ساتھ لیز سب لیز منسوخ،اور اس خاندان کے نام دو ارب روپے مالیت کے 510 پلاٹس، جعلی الاٹمنٹ، جعلی لیز اور سب لیز کے ذریعے قبضہ کرنے کا ریکارڈ بھی جاری ہوگیا ہے۔ایسے کئی مہروں کا اربوں روپے مالیت کی سرکاری زمین جعلی کاغذات پر الاٹمنٹ، جعلی لیز اور سب لیز کے ساتھ مختلف ناموں پر ٹرانسفر کی تصدیق پروجیکٹ آفس نے کردی ہے، جبکہ نیب کراچی نے ون ڈی بس اسٹاپ کا ریزور لینڈ کو دھوکہ دہی،فراڈ اور جعلسازی سے الاٹ کرنے، دس نمبر پر کچی مارکیٹ کی غیر قانونی تعمیرات، الاٹمنٹ، جعلی لیز کرنے،پانچ نمبر اورنگی کے رفاہی پلاٹ جعلسازی سے الاٹمنٹ، لیز سمیت 49 مختلف پلاٹس کی تحقیقات شروع کردی ہے۔ نیب کی ایک ٹیم تمام پلاٹس اور اس کے ریکارڈ کی چھان بین پہلے ہی کرچکی ہے۔رضوان خان کے خلاف اینٹی کرپشن پولیس کے 86 زیر التوا کیس کی تحقیقات بھی اخری مراحل میں ہیں۔ میونسپل کمشنر سید افضال زیدی نے عدالت کے حکم پر اینٹی کرپشن پولیس کوانکوئری کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ 12عدالتوں نے پہلے ہی عدالت کو گمراہ کرنے پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کررکھا ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر کے ذرائع نے تصدیق کرتے ہوئے رضوان خان کے مبینہ فرنٹ مین اور مہرہ رانا گلزار 400/400 پلاٹ نمبر 3760/3761/3766/3767، سیکٹر ساڑھے گیارہ گلشن ضیاء اورنگی 12 کروڑ روپے مالیت کے پلاٹس دھوکہ دہی سے اپنے نام کرنے کی تصدیق کردی ہے۔ رانا گلزار پانچ کروڑ روپے مالیت کے دو تجارتی پلاٹس بھی (پلاٹ نمبر SA-76 پلاٹ نمبر SA-77 سیکٹر 10-1 اورنگی ٹاون)اپنے نام کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے جن پر جعلی دستخط موجود ہیں۔ رضوان خان، عقیل احمد،راؤ عمران اور ایس ایم جاوید کے دستخط موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ارب روپے مالیت کے 21 دیگر جعلی کاغذات کے ذریعے الاٹ کرنے کے کھیل میں راناگلزار کے ملوث ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے رضوان خان نے ریگویلرایزیشن لیٹر میں سہولت کاری کرتے ہوئے رانا گلزار کے نام کردیئے تھے جس سے ادارہ کو کروڑوں روپے کا ناقابل تلافی نقصا ن پہنچایا گیا۔ مجموعی رقبہ 1600 گز یعنی 0,33 ایکٹر اراضی کمرشل کرکےجاری کیا تھا۔،سائٹ پلان پر سہولت کاری کرتے ہوئے کچی آبادی کے ملازم کلرک عقیل احمد نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رانا گلز ار کے لینڈ سرویئر کا کردار ادا کیا۔ چاروں کمرشل پلاٹس کے کاغذات پر مظہر خان کے دستخط موجود ہیں،جو 2015ء میں انتقال کرچکے ہیں، لینڈ مافیا رانا گلزار نام کیے۔ رضوان خان نے بذات خود عدالت میں نیا بیان حلفی 17بومبر 2022ء کو جمع کرایا جس میں وہ پلاٹ کو اصل ثابت کررہے تھے۔ پہلے جو خط نمبر NO,PD/KMC/OTS/251/2022 بتاریخ 19ستمبر 2022ء جو کہ کیس نمبر 1253/2022 کے لئے پیش کیا گیا تھا وہ خط جعلی بھوگس تھا اس کو کیس نمبر1309/2022 میں جعلسازی کی گئی۔ رانا گلزار نے جس راشد نامی شخص کا ذکر کیا ہے وہ اس گروپ کا ایک کردار ہے۔ یہ پہلے بھی کیس میں کردار ادا کر چکا ہے۔ اسی طرح قیصر عالم نامی شخص بھی اس سے قبل مختلف کیسوں میں فریق ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ چاروں چالان پر حفیظ کے دسٹخط موجود ہے جو کہ KMC یا کسی سرکاری ادارہ کا ملازم نہیں ہے۔ اس پر پروجیکٹ ڈائریکٹر رضوان خان کے دستخط موجود ہیں۔رانا گلزار احمد کا شناختی کارڈ CNIC-42401-3779134-1، رہائش نمبر 229 سیکٹر 11-F اورنگی ٹاون کا پٹہ درج ہے۔اربوں روپے مالیت کی جائیداد بھی پروجیکٹ کے بدعنوان افسران کے ذریعے حاصل کی گئی ہیں۔ اسی طرح دس نمبر پر کچی مارکیٹ میں 267 دکانیں تعمیرات کرنے کے اربوں روپے رانا گلزار نے رضوان خان کے ساتھ مل کر فروخت کی تھی جبکہ پلاٹ نمبر ST-10 سیکٹر 7-A اورنگی ٹاون کی حیثیت تبدیل کرکے تجارتی بنیاد پر الاٹ کردیا گیا تھا اور پلاٹ نمبر ST-5 سیکٹر 2-A اورنگی ٹاون عبدالستار کی الاٹمنٹ اور لیز منسوخ کرنے اور 14 لاکھ روپے چالان ضبط سرکار،پلاٹ نمبر ST-10 سیکٹر7-Aاورنگی ٹاون کے الاٹمنٹ منسوخ اور چالان کی رقم چار لاکھ 15ہزار روپے ضبط سرکار کرنے کی ہدایت کی تھی۔ پلاٹ نمبر 110 اسٹریٹ 2 سیکٹر ساڑھے گیارہ گلشن ضیاء اورنگی، ورکشاپ کا مختص پلاٹ میں 1000 گز کے دو پلاٹ 1200 گز کا کمرشل پلاٹس جعلی کاغذات پر الاٹ کردیا گیا ہے۔ رضا عباس رضوی، مسرت علی اور محمد وسیم پر مشتمل کمیٹی نے تمام پروجیکٹ ڈائریکٹر کے الاٹمنٹ کو جعلی،دھوکہ دہی اور فراڈ قرار دیتے ہوئے ان الاٹمنٹ کو منسوخ کرنے کی ہدایت کی ہے اور ان میں ملوث رضوان خان سمیت دیگر افسران کے خلاف سخت تادیبی کاروائی کی سفارش کی ہے۔نیب کا سزا یافتہ مجرم طاہر جمیل درانی کی تنخواہ لینے کو غیر قانونی قراردیتے ہؤے پانچ سال کے واجبات وصول کرنے کا حکمنامہ جاری ہوگیا ہے وہ بھی اورنگی کی زمینوں پر ہاتھ صاف کر چکے ہیں۔ ان میں اورنگی ٹاون میں دس کروڑ روپے مالیت کے چار سو گز کے چار تجارتی پلاٹس لینے والوں میں شامل ہیں۔ اورنگی میں ہونے والی چائنا کٹنگ کی اگر اعلی سطع پر عدالتی تحقیقات کرائی جائے جس میں ہزاروں خاندانوں کو جمع پونجی اور اثاثہ جات سے محروم کردیا گیا ہے اور دوسری جانب جعلسازی، دھوکہ دہی اور فراڈ کے ذریعے سرکاری اختیارات کا خطرناک حد تک استعمال اور اختیارات سے تجاوز کرتا ہوا صاف نظر آرہا ہے۔ نیب کراچی کی کاروائی سے توقع ہے کہ اورنگی کی زمینوں کی لوٹ مار کے کردار پکڑیں جائیں گے۔