اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی کرنسی کی قدر میں گراوٹ کی بنیادی وجوہات میں امریکا کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا کا پاکستان پر کم انحصار ہے۔9/11 کے واقعات کی وجہ سے امریکا کا پاکستان پر انحصار بڑھ گیا تھا اور پاکستان پر ہونیوالی ڈالروں کی برسات کے نیچے یہ مسائل دب گئے تھے، روپے کی گراوٹ کی دوسری بڑی وجہ گزشتہ سالوں کے دوران حاصل کیے گئے قرضوں کا میچیور ہونا بھی ہے۔ اس کے علاوہ نئے پاور پلانٹس کو کیپیسیٹی چارجز کی مد میں ادائیگیوں کا بحران بھی ایک بڑی وجہ ہے، جس کی وجہ سے اگلے دس سالوں میں غیر ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگیاں سالانہ 10 سے 15 ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ کر 25 تا 30 ارب روپے سالانہ تک پہنچ جائیں گی۔ ان تمام مسائل کے علاوہ اشرافیہ کی جانب سے ڈالر کو سرمایہ کاری کے طور پر استعمال کرنے کے رجحان نے بھی روپے کی گراوٹ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان کے اندر اور باہر 5 سے 10 ارب ڈالر تک ذخیرہ کیے گئے ہیں، اس معاملے میں حوالہ ہنڈی، امپورٹس کی انڈر انوائسنگ، اور ایکسپورٹس کی اوورانوائسنگ کرکے بھی ڈالر کی ذخیرہ کاری کی گئی ہے، لنڈی کوتل، چمن اور تفتان میں موجود کرنسی مارکیٹوں کا اس میں اہم کردار ہے، جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، عمرہ، حج اور زیارتوں کی آڑ میں بھی کرنسی باہر منتقل کی گئی ہے۔ ابھی تک گھروں، بینک لاکرز اور الماریوں میں بڑی تعداد میں ڈالرز کا ذخیرہ موجود ہے، جس کی وجہ سے ڈالر کی ڈیمانڈ بڑھ کر آسمان پر جاپہنچی ہے، واضح رہے کہ حالیہ کریک ڈاون سے اس صورتحال کو عارضی طور پر ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے، جب تک ہم غیر رسمی فاریکس مارکیٹس کو ختم کرکے دستاویزی نہیں بناتے اور ڈالر کی خرید و فروخت کو مکمل طور پر قانونی دھارے میں نہیں لاتے، تب تک پائیدار بہتری کی امید لگانا ممکن نہیں ہے۔ ڈالر کو کنٹرول کرنے کیلیے ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور اگلے دس سال تک اس حوالے سے چیلنجنگ رہیں گے، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور ایکسپورٹ کو بڑھا کر ڈبل کرنا بہت آسان نہیں ہے، لیکن ناممکن بھی نہیں ہے، مالی سال 2022 کے دوران اسٹیٹ بینک کو 70 ارب ڈالر حاصل ہوئے، جبکہ اسٹیٹ بینک نے 100 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کیں، 30 ارب ڈالر کی ادائیگی قرضے حاصل کرکے کی گئی، ایسے میں اگر کرنسی میں سالانہ گراوٹ 30 فیصد نہ ہو تو یہ ایک جیت کی صورت ہے۔ دوسری طرف 22 فیصد پالیسی ریٹ کے باجود ہماری نوٹ چھاپنے کی رفتار سست نہیں ہوئی، 2018 میں 15 کھرب روپے کے نوٹ چھاپے گئے تھے جو بڑھ کر 32 کھرب روپے ہوچکے ہیں، ان اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے کہ کیوں مقامی اشیاءاور خدمات کی قیمتیں ڈبل ہوگئی ہیں۔