کراچی (خصوصی رپورٹ)
وفاقی اردو یونیورسٹی کی اراکینِ سینٹ اور ڈپٹی چیئر سینٹ کی تقرری کے معاملہ پر ایوانِ صدر اور وزیر اعظم ہاؤس آمنے سامنے آگئے۔ صدرِ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اپنے کاروباری حلقہ سے تعلق رکھنے والے اپنے قریبی دوست کو ڈپٹی چیئر سینٹ بنانے کے لیے بضد۔سابق وزیر اعظم شہباز شریف کے دور میں اس نامزدگی کو مسترد کیا جاچکا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزارتِ تعلیم و پیشہ وارانہ تعلیم کی طرف سے اردو یونیورسٹی کی طرف سے ارسال کیے گئے اراکینِ سینٹ کے پینل پر اردو یونیورسٹی کے ہی آرڈیننس کی روشنی میں اعتراضات کیے گئے جس پر قائم مقام وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیاء الدین نے بجائے اردو یونیورسٹی ان اعتراضات کو دور کرنے کے صدرِ پاکستان و چانسلر اردو یونیورسٹی نے ان ناموں کی جلدازجلد منظوری کے لیے وزارتِ تعلیم پر دباؤ بڑھادیا۔ وزارتِ تعلیم نے بالآخر وزیر اعظم ہاؤس کو یہ سمری ارسال کی جس میں اردو یونیورسٹی کے آرڈیننس کا حوالہ دیتے ہوئے ان پینل کو خلاف قانون قرار دینے کی تفصیل بھی شامل تھی۔ یونیورسٹی کے آرڈیننس کی شق 15-F کے مطابق مختلف شعبہ جات زندگی سے ماہرین کا انتخاب کیا جائے گا۔ اس شق کے مطابق:
Five persons from society at large being persons of distinction in the fields of administration, management, education, academics, law, accountancy, medicine, fine arts, architecture, agriculture, science, technology and engineering such that the appointment of these persons reflect a balance across the various fields.
اس شق کے مطابق کسی کاروباری شخصیت کی یونیورسٹی کی سینٹ کی رکنیت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس شق کو سامنے رکھتے ہوئے وزیر اعظم ہاؤس نے یہ سمری مسترد کرتے ہوئے وزارتِ تعلیم کو واپس ارسال کردی اور احکامات دیئے کہ پینل کے نام یونیورسٹی کے آرڈیننس کے مطابق تیار کر کے ارسال کیے جائیں۔
اس کے علاوہ صدرِ پاکستان نے کاغذ کے کاروباری حلقوں میں شہرت رکھنے والے اپنے ایک دوست اے کیو خلیل کو بحیثیت ڈپٹی چیئر سینٹ نامزد کرچکے ہیں اور اس نامزدگی کو وزارتِ تعلیم کی طرف سے اردو یونیورسٹی کے قانون کے خلاف قراردیئے جانے کے باوجود اب تک صدرِ پاکستان کی طرف سے 8 بار اس نامزدگی کے لیے خط تحریر کیا جاچکا ہے۔ اے کیو خلیل اس سے قبل بھی ڈپٹی چیئر رہ چکے ہیں۔ جب سابقہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کا دورانیہ اختتام پذیر ہوا تو اے کیو خلیل نے اپنے دو دیگر کاروباری حلقوں سے تعلق رکھنے والے اراکینِ سینٹ کے ساتھ مل کر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کے دفتر میں داخل ہو کر انہیں زبردستی رخصت کیا اور خود دفتر شیخ الجامعہ میں بحیثیت وائس چانسلر بن کر بیٹھ گئے اور کئی دن تک اس عہدہ پر براجمان رہے اور وائس چانسلر کے تمام اختیارات استعمال کرتے رہے۔ اے کیو خلیل کے اس اقدام کو یونیورسٹی کے اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین نے خلاف قانون قرار دیتے ہوئے اسے چیلنج کیا اور ایک احتجاجی تحریک چلائی۔ جس کے بعد سینٹ کے اگلے اجلاس میں صدرِ پاکستان کی سربراہی میں اے کیو خلیل کے اس اقدام کی توثیق نہ ہوسکی اور ان کے اس اقدام کے خلاف علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم اور ایڈیشنل سیکریٹری وفاقی وزارت تعلیم وسیم اجمل پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی جس نے اگلے اجلاس میں اپنی رپورٹ پیش کرنی تھی۔ اے کیو خلیل اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے آج تک یہ رپورٹ سینٹ میں پیش نہیں ہونے دی۔
اس رپورٹ میں اے کیو خلیل کے دفتر شیخ الجامعہ کا نگراں بننے کے اقدام کو خلافِ قانون قرار دیا گیا اور ان 8 اہم اقدامات کو منسوخ کرنے کی سفارش کی۔ وفاقی وزارتِ تعلیم نے یہ رپورٹ اردو یونیورسٹی کو جمع کروادی تھی تاکہ اسے سینٹ کے اجلاس میں پیش کیا جائے لیکن آج تک یونیورسٹی انتظامیہ نے اس پر عمل نہیں کیا۔ اےکیو خلیل نے بعدازاں اس وقت کی رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر روبینہ مشتاق کو پرسنل میسیج کے ذریعہ ہراساں کرنے کی بھی کوشش کی اور ان سے Courtesy Callنہ کرنے کا شکوہ کرتے رہے۔ اے کیو خلیل اور ان کے دیگر دوستوں کے ذریعہ سابق مستقل وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر عطاء کو 2022ء میں خصوصی طور پر کینیڈا سے بلوا کر چارج سونپا گیا۔ اے کیو خلیل ڈاکٹر اطہر عطاء کو چارج دلوانے والے دن ان کے ساتھ خود یونیورسٹی تشریف لائے اور ان کے دفتر میں بیٹھ کر دباؤ کے ذریعہ ان سے من پسند افرد کو انتظامی عہدے دلواتے رہے۔ صدرِ پاکستان کے دوستوں کا یہ پروجیکٹ بھی ناکام ہوا اور ڈاکٹر اطہر عطاء اس دباؤ کو برداشت نہ کرسکے اور محض 2 ماہ کے بعد چھٹیاں گزارنے کینیڈا گئے اور وہاں سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا او ریونیورسٹی ایک بار پھر مستقل وائس چانسلر سے محروم ہوگئی۔اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی کی سینٹ کی ایک میٹنگ میں ایک فیصلہ کو اکثریتی سے اقلیتی میں تبدیل کرنے کے لیے اے کیو خلیل نے اپنے ”دو ووٹ“ شمار کر کے فیصلہ کو تبدیل کردیا۔ دنیا کی جمہوری تاریخ میں کسی ایک فرد کے طرف سے اپنے ”دو ووٹ“ شمار کرنے کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی کے ایک پروفیسر محمد صدیق نے سندھ ہائی کورٹ میں سابق ڈپٹی چیئر اے کیو خلیل اور ان کے دوست انجمن ترقی اردو کے صدر واجد جواد کی سینٹ میں نامزدگی کو چیلنج کررکھا ہے جس پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ صدرِ پاکستان کی اپنے کاروباری دوستوں کو سینٹ میں نامزد کروانے کی ضد کی وجہ سے اردو یونیورسٹی کی سینٹ میں کئی نشستیں خالی ہیں جس کی وجہ سے کئی بار سینٹ کے اجلاس کے انعقاد میں کورم کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے اور نتیجتاً یونیورسٹی آگے نہیں بڑھ سکتی اور بدستور ایڈہاک ازم پر چل رہی ہے۔